تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
حوزہ نیوز ایجنسی। امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اہل ِ بیت رسول ؐ اور صحابہ کرام میں منفرد حیثیت کے حامل تھے۔ ایک ہی وقت میں مختلف جہات بلکہ ہمہ جہت شخصیت ہونے کا اعزاز بھی آپ کے حصے میں آیا۔ انبیاء‘ اوصیاء‘ صلحا ء اور اولیاء میں تاریخ نے ایسے نادر انسان کم دیکھے ہیں جو ایک ہی وقت میں علم کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں اور منصب ِ حکومت نبھانے میں بھی اعلیٰ مہارت رکھتے ہوں۔ حلم و کرم کے آخری درجے پر موجود ہوں اور جہاد و قتال میں بھی سب سے اگلی صفوں میں پائے جاتے ہوں۔ اس ہمہ جہتی میں جس طرح علی منفرد و ممتاز ہیں ویسا کوئی انسان نظر نہیں آتا۔
علی ؑ کو فاتح عالم کہنا کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں ہے
علی ؑ نے فقط میدان حرب و ضرب میں اپنے کمالات نہیں دکھائے بلکہ انسانی زندگی کے جس میدان میں قدم رکھا اسے فتح کیا۔ علم کا میدان ہو تو شہر ِ علم کے دروازے بن کر نبی ؐ معظم کی پاک زبان سے متعارف ہوتے ہیں اور منبر ِ مسجدِ کوفہ سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کی صدا بلند کرتے ہیں۔ اور رہتی دنیا تک علم کی خیرات تقسیم کرنے کا ذمہ لے لیتے ہیں۔ عدالت و قضاوت کا میدان ہو تو وہاں بھی اپنی کمال ذہانت و فطانت سے ایسے ایسے فیصلہ کرتے ہیں جس سے نہ صرف حکمران ہلاکتوں سے بچ جاتے ہیں بلکہ عقل ِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اس عدالت و قضاوت کے ڈنکے چہار عالم اب تک بجائے جارہے ہیں۔ سیاست اور حکومت کا میدان ہو تو وہاں بھی علی ؑ ہی ایک ماہر ترین سیاست دان اور شفاف ترین حکمران نظر آتے ہیں۔ علی ؑ جیسا طرزِ سیاست بھی تاریخ میں نظر نہیں آتا اور علی ؑ جیسی شفاف حکومت کی مثال بھی نہیں پائی جاتی۔ حکمت و دانائی کا میدان بھی علی ؑ کے وجود سے خالی نہیں بلکہ علی ؑ کے وجود سے ہی حکمت و دانائی قائم و دائم نظر آتی ہے۔ مولا ؑ کے حکیمانہ اقوال اور مدبرانہ خطبات آج بھی دنیا کو حکمت و دانائی کی طرف مدعو کررہے ہیں۔
غرض یہ کہ علی ؑ ہر میدان کا فاتح نظر آتا ہے مگر آج ہم علی ؑ کا میدان ضرب و حرب پر بات کریں گے۔ اسلام کی آمد کے زمانے میں خطہ عرب میں دو چیزیں امتیاز کی حامل تھیں بلکہ یہی دو چیزیں عرب قبائل کے اندر غلبے اور اعلیٰ حیثیت کے حصول کا ذریعہ تھیں۔ پہلی فصاحت و بلاغت اور دوسری تیغ و تلوار۔ نبی اکرم ؐ نے بھی انہی دو چیزوں پر اپنی توجہات مرکوز فرمائیں۔ اپنی زبان اور کردار کے بعد قرآن کریم کو فصاحت و بلاغت کا ذریعہ بنایا جس سے دنیا کے بڑے بڑے فصیح و بلیغ لوگ نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ ورطہ حیرت میں مبتلا ہوئے۔ اسی طرح نبی مکرم ؐ نے میدان ِ جنگ میں بھی ہاشمی جوانوں اور دیگر جانثاروں کے ذریعے شجاعت کی ایسی تاریخ رقم کی کہ آج تک اس کی نظیر دستیاب نہیں۔ عرب کی شجاع ترین اور جرات و ہیبت کی علامت سمجھے جانے والے بہادر پہلوانوں کو نوخیز جوانوں کے ہاتھوں عبرت کا ایسا نشان بنایا کہ پھر کبھی عربوں نے نبی اکرم ؐ کے ساتھیوں کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔
عربوں پر اپنی شجاعت کی دھاک بٹھانے والوں میں علی ابن ابی طالب ؑ سرِ فہرست نظر آتے ہیں۔ اسلام نے اور پیغمبر ِ اسلام نے ہمیشہ دفاعی جنگوں کے ذریعے اپنے آپ کو منوانے کا راستہ اپنایا ہے۔ کبھی ناجائز حملوں یا بے جا تسلط کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ اسلام کے خلاف ہونے والی پہلی جنگ یعنی جنگ ِ بدر کا پس منظر بھی ایسا ہی تھا۔ اسی جنگ میں علی ؑ کا شباب اپنے عروج پر تھا جہاں تین سو تیرہ لوگوں میں شامل علی ؑ نے مکہ والے حملہ آوروں کے بڑے بڑے برج الٹے۔ ستر سے زیادہ لوگوں کو تہہ تیغ کرنے میں حصہ کا نمایاں حصہ شامل تھا۔ حضرت امیر حمزہ ؑ اور حضرت علی ؑ کی جانفشانی جنگ ِ بدر کا خاصہ رہی۔ اور اہل ِ اسلام کی فتح کا سبب ان دونوں شخصیات کی مردانہ وار جنگ قرار پایا۔ رسول ِ خدا ؐ کی سپاہ کی پشت آفتاب کی جانب تھی جبکہ قریشیوں کا رخ آفتاب کی جانب تھا۔ اسلامی سپاہ کی قیادت کا پرچم عقاب کے نام سے موسوم تھا اور یہ پرچم اکابرین اور خاص افراد کو ملتا تھا۔ آج یہی عقاب پرچم حضرت علی ؑ کے ہاتھ میں تھا
ابو جہل کے جنگی جنون کے سبب ہونے والی اس جنگ میں سب سے پہلے کفار کی طرف سے تین افراد عتبہ‘ ولید اور شیبہ میدان میں وارد ہوئے۔ رسول اکرم ؐ نے ان تین حملہ آوروں کے مقابلے کے لیے اپنے چچا حضرت امیر حمزہ ؑ ‘ اپنے بھائی حضرت علی ؑ اور عبیدہ بن حارث کو میدان میں بھیجا۔ حضرت حمزہ ؑ نے عتبہ کو ہلاک کیا۔ حضرت علی ؑ نے ولید کا کام تمام کیا۔ اور عبیدہ نے حمزہ و علی کی مدد سے شیبہ کو جہنم رسید کیا۔ حضرت علی ؑ کے بقول آپ ان تینوں حملہ آوروں کی ہلاکت میں شریک ہوئے۔ ان تینوں کی ہلاکت کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوئی اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ حمزہ اور علی نے کفار کا ایسا سلوک کیا کہ وہ اپنا مال و اسباب چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ بدر میں مشرکین کے ستر افراد مارے گئے ان ستر میں پینتیس افراد صرف تنہا علی ؑ کی تلوار کا نشانہ بنے۔ اور علی ؑ بدر کا بھی فاتح ٹھہرا۔ابو جہل کی ہلاکت کے بعد رسول اکرم ؐ نے سکھ کا سانس لیا اور فرمایا ”اے میرے رب تو نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرکے دکھایا“۔
بدر کے بعد ایک بار پھر مسلمانوں کو احد کا غزوہ درپیش تھا۔ اس بار مشرکین نے پہلے سے زیادہ تیاری میں تھے اور جنگ ِ بدر میں ہونے والے نقصان اور مارے جانے والے سرداروں کا بدلہ لے کر میدان میں اتر رہے تھے۔ اس مرتبہ جنگ کی قیادت ابو جہل کے مرنے کے بعد اس کے نائب ابوسفیان کر رہے تھے۔ ابوسفیان کم و بیش تین ہزار جنگجووں کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں پر حملے کے لیے آچکا تھا۔ اسلامی لشکر کی قیادت خود رسول اکرم ؐ نے فرمائی اور پرچم برداری کا کام ایک بار پھر علی ؑ کے حصے میں آیا۔ بلکہ رسول اکرم ؐ کے گرد حفاظتی حصار اور آپ ؐ کی ذاتی سیکورٹی کی ذمہ داری بھی علی ؑ پر آئی۔ پہلے حملے میں مسلمانوں نے مشرکین کے نو افراد کو قتل کیا تو مشرکین پسپا ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ ایک بار پھر مشرکین اپنی عورتوں کے اشتعال دلانے اور جنگ بدر میں مارے جانے والے ساتھیوں کو یاد کرکے پوری طاقت سے حملہ آور ہوئے تو اسلامی لشکر نے علی ؑ جیسے سپاہ سالاروں کے ذریعے مشرکین کے متعدد لوگ مار دئیے۔ اس موقع پر مشرکین جب میدان سے فرار ہونے لگے تو مسلمانوں نے سمجھا کہ ہم نے جنگ فتح کرلی ہے۔ اس غلط فہمی میں مسلمان سپاہی جنگ چھوڑ کر اور اپنے مورچوں سے نکل کر مشرکین کا مال لوٹنے میں مشغول ہوگئے۔ درہ عینین پر تعینات اصحاب نے حضور اکرم ؐ کی یہ ہدایت فراموش کردی کہ درہ کسی قیمت پر خالی نہیں چھوڑنا۔ وہ درہ چھوڑ کر میدان ِ جنگ میں مال اکٹھا کرنے میں لگ گئے۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت خالد بن ولید کررہے تھے۔ جس نے موقع پا کر درہ پر قبضہ کرلیا اور عقبی جانب سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ اسی اثناء میں حضور اکرم ؐ کی شہید ہونے کی افواہ پھیلی تو صحابہ نے
ہمت ہار دی اور میدان سے فرار ہونے لگے۔ ایسے کٹھن موقع پر چند لوگ حضور اکرم ؐ کے ساتھ رہ گئے جن میں حضرت علی ؑ سب سے آگے فرنٹ مین کے طور پر لڑ رہے تھے۔ ایک طرف مشرکین پر حملہ کرکے انہیں پسپا کرتے اور دوسری طرف حضور اکرم ؐ کے نزدیک کسی حملہ آور کو نہ آنے دیتے اور حضور ؐ کی حفاظت کرتے۔اسی گھمسان میں حضرت حمزہ بھی شہید ہوئے اور حضور اکرم ؐ کی دندان مبارک بھی شہید ہوئے۔ حضور ؐ نے اس جنگ میں حضرت علی ؑ کو ایک ایسی تلوار عنایت فرمائی جس کی کاٹ قیامت تک یاد رہے گی اس تلوار کا نام ”ذوالفقار“ ہے۔ جس کے بارے میں معروف مصرعہ ہے ”لافتح الا علی ؑ لا سیف الا ذوالفقار“۔
مذکورہ بالا دونوں غزوات کے بعد ایک بار پھر مسلمانوں کو مشرکین کی طرف سے جنگ کا مرحلہ درپیش تھا۔ مکہ والوں نے اس دفعہ زیادہ زور اور طاقت جمع کی مختلف قبائل کی افواج کو اپنے ساتھ شامل کیا اور مدینہ پر حتمی کاروائی کا پروگرام بنایا اور تمام مسلمانوں کو ختم کرکے مدینہ فتح کرنے کا اعلان کیا۔ حضور اکرم ؐ کو جب مشرکین ِ مکہ کے عزائم کی خبر ہوئی تو آپ نے تیاریاں شروع کردیں۔ حضرت علی ؑ کے ساتھی اور دوست حضرت سلمان فارسی ؑ کے مشورے پر مدینہ کے ارد گرد خندق کھودنے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں حضور ؐ نے بذات ِ خود حصہ لیا۔ بالآخر مشرکین اور کفار پہنچ گئے اور ایک ماہ تک مدینہ کا محاصرہ جاری رکھا۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ مشرکین میں سے کوئی خندق پار نہیں کرسکے گا۔ لیکن کفار کا ایک بڑا سالار اور عرب کا مشہور بہادر جنگجو عمرو بن عبدود اپنے پانچ ساتھی سپاہیوں سمیت خندق پار کرکے مسلمانوں کے سروں پر آن پہنچا۔ یہ پہلوان عرب میں ایک ہزار سپاہیوں کے برابر طاقت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔اس نے پہنچتے ہی اسلامی لشکر کو جنگ کا چیلنج دیا جسے حضرت علی ؑ نے فوراً قبول کرلیا لیکن حضور اکرم ؐ نے منع فرما دیا اور اسلامی لشکر کے دیگر سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے کہ شاید ان میں سے کوئی اس پہلوان کے مقابلے کے لیے سامنے آئے۔ عمرو بن عبدود نے تین بار چیلنج دیا اور حضرت علی ؑ نے تینوں بار قبول کیا مگر کسی اور کی ہمت نہیں ہوئی حتیٰ کہ اس نے اپنا نیزہ حضور اکرم ؐ کے خیمہ مبارک پر مارا اور چیلنج کیا کہ کسی مرد کو بھیجو۔ تو حضوراکرم ؐ نے اب حضرت علی ؑ کو اجازت عطا فرمائی۔ حضرت علی ؑ نے عمرو بن عبدود کی جانب قدم بڑھائے تو حضور اکرم ؐ نے فرمایا ”آج کُل کا کُل ایمان کُل کے کُل کُفرکی طرف جارہا ہے۔ حضرت علی ؑ نہایت شان سے اسلام کے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور حضور اکرم ؐ خوشی سے اپنے بھائی کی تعریف فرما رہے تھے۔ مولا ؑ علی نے ایک بھرپور حملے کے ذریعے جب عمرو بن عبدود کا کام تمام کرکے اس کا سر تن سے جدا کیا تو اس کے باقی پانچ ساتھی فرار ہونے لگے مگر علی ؑ کی تلوار سے اس کا ایک ساتھی نوفل نہ بچ سکا اور علی ؑ نے اسے بھی اپنے سردار کے ساتھ جہنم رسید کردیا۔ اس کے بعد کفار کا لشکر جرات نہ کرسکا اور پسپا ہوگیا۔ اس موقع پر حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ ”اے علی ؑ تیری آج کی ضرب پوری ثقلین کی عبادت سے افضل ہے“۔ حضرت علی ؑ نے فتح کے بعد قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی۔ ”رب لا تذرنی فرداً و انت خیرالوارثین“۔
گذشتہ تینوں بڑے غزوات میں فاتح کا سہرا حضرت علی ؑ کے سر سجا تو مشرکین اور یہودیوں کو پھر بھی چین نہ آیا اور انہوں نے خیبر کے قلعے کو اسلام کے خلاف سازشوں کا مرکز بنایا تو حضور اکرم ؐ نے یہ قلعہ فتح کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس مقصد کی غرض سے اسلامی لشکر نے قلعہ خیبر کا محاصرہ کیا جس کا سربراہ مرحب یہودی تھا۔ حضور ؐ نے محاصرے کے دوران قلعہ فتح کرنے کے لیے اسلامی لشکر کے مختلف لوگوں اور اپنے اصحاب کو ذمہ داری سونپی لیکن کسی کو کامیابی نصیب نہیں ہوئی بلکہ یہودی سپاہیوں کے ہاتھوں اسلامی لشکر کے بہت سارے لوگ
زخمی ہو گئے۔ اس صورتحال میں بعض روایات کے مطابق چالیس روز گذرنے کے قریب تھے آخری روز حضور اکرم ؐ نے حضرت علی ؑ کو بلایا اور اپنا سفید پرچم ان کے حوالے کرکے قلعے کی طرف روانہ کیا۔ مرحب کے سامنے پہنچ کر علی ؑ نے اسے جنگ کا چیلنج دیا تو جواب میں مرحب نے اس چیلنج کو مذاق سمجھتے ہوئے اپنا فخریہ تعارف کروایا اور علی ؑ کو ڈرانے اور واپس جانے کی کوشش کی تو علی ؑ نے بھی مرحب کے جواب میں اپنا ہاشمی تعارف کرایا اور ہر صورت جنگ کا اعلان کیا۔ مرحب نے علی ؑ کو پہلے وار کرنے کی دعوت دی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ میں اس نوجوان کو موقع دوں تاکہ میرے وار کے بعد اس کی حسرت نہ رہ جائے۔ مگر حضرت علی ؑ نے مرحب سے کہا کہ علی ؑ نے کبھی پہلے وار نہیں بلکہ اپنے دشمن کو موقع دیتا ہے۔ اس پر دونوں جنگجووں کی دو بدو لڑائی شروع ہو گئی۔ مرحب نے پوری طاقت سے مولا علی ؑ پر حملے کیا تو علی ؑ نے اس کا وار خطا کیا اور اب علی ؑ کی باری تھی۔ علی ؑ نے مرحب پر ایسا زور دار وار کیا کہ مرحب کے وجود کے سر سے پاؤں تک دو ٹکڑے ہوگئے۔ علی ؑ نے فتح کے بعد اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو یہودی قلعہ خیبر چھوڑ کر بھاگ گئے اور اسلامی لشکر نے مال ِ غنیمت سے خوب استفادہ کیا۔
علی ؑ کی فتوحات سے آپ ؑ کی ذات کو نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو بے پناہ اور لاتعدا فوائد حاصل ہوئے۔ علی ؑ کا ہدف ہمیشہ اللہ تعالے کی خوشنودی اور رسول اللہ کااطمینان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علی ؑ کی نظر کبھی مال ِ غنیمت کی طرف نہیں رکی بلکہ اللہ تعالے کی مرضی اور اطاعت کی طرف رہی ہے۔ اسلام کے دامن میں جتنی بھی جنگیں موجود ہیں سب کی فتح کا سہرا علی ؑ کے سر سجتا ہے۔ علی ؑ کی شان ہے کہ وہ کبھی میدان سے بھاگا نہیں۔ کبھی میدان سے پشت نہیں دکھائی۔ کبھی بھاگتے ہوئے دشمن کا پیچھا نہیں کیا۔ کبھی دشمن کو وار کرنے سے نہیں روکا بلکہ اسے پہلے وار کرنے کی دعوت خود دی اور خود آخر میں وار کرتے رہے۔ علی ؑ نے فتح کے بعد کبھی فخر و مباہات نہیں کیں بلکہ اپنے خالق کے سامنے سجدہ شکر بجا لائے۔ علی ؑ کی فتوحات کا احاطہ کرنا انسان کے بس سے باہر ہے یہی وجہ ہے کہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے علی ؑ کا مفتوح رہے گا۔