۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید جاوید عباس مصطفوی

حوزہ/ قرآن پاک نے تمام جن و انس کو مخاطب کرکےاعلان کیا کہ ساری مخلوقات اپنی اجتماعی کاوشوں کے باوجود اس کا مثل لانے سے مجبور و ناچار ہیں۔

تحریر: مولانا سید جاوید عباس مصطفوی

حوزہ نیوز ایجنسی خدا ئےمنان نے نوع بشریت کی رہنمائی کے لیے ماہ مبارک رمضان میں قرآن کریم کو نازل کیا جو عیوب وفتور سے پاک و پا کیزہ اور جسکے معارف ہرطبقہ اور ہر زمانہ کے لیے ہیں یعنی  زمانہ کی گردشیں اسے گرد آلود نہیں کرسکتی کیونکہ خود نازل کرنے والےنے اسکی حفاظت کی زمانت لی ہے اور مختلف اسباب پیدا کیۓ ہیں جیسے نزول کے ساتھ ہی اس کو تحریری شکل میں لانا، پھر ہزاروں صحابہ کا حفظ کے ذریعہ سینوں میں محفوظ کرنا  جو  سلسلہ الحمد اللہ آج بھی ہے اور قیامت تک جاری رہیگا، اسکے برعکس دوسری آسمانی کتابوں کا حافظ آپ کو کہیں نظر نہیں آیٔگا۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(الحجر ایہ۹)        

اعجاز قرآن
لفظ معجزہ عجز سے نکلا ہوا ہے جس کے معنیٰ  بے بس،ناچار و عاجز ہو جانے کے ہیں۔اس کے ذریعہ  سے قادر مطلق  اپنی قدرت کا ملا کا  اظہار نبی کے توسل سےکرتا ہے  جو نبی یا رسول کی  نبوت اور رسالت کی دلیل کے ساتھ ساتھ اظہار  شان و شوکت بھی مقصود ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت نے جہاں  ہمارے نبی ختمی مرتبتﷺ  کو بہت سارے معجزہ عطا کئے انہی میں  سے ایک عظیم معجزہ قرآن کریم ہے جو آپؐ کا دائمی معجزہ ہے۔
ما من الأنبياء من نبيٍّ ، إلا و قد أُعطَى من الآيات ما مِثلُه آمنَ عليه البشرُ ، و إنما كان الذي أُوتيتُه وحيًا أوحاه اللهُ إليَّ ، فأرجو أن أكون أكثرَهم تابعًا يومَ القيام(ابن حمنبل ج۱ص۳۴۱)
ہرنبی کو اتنے ہی معجزے عطا کیے گئے جنہیں دیکھ کر لوگ اللہ اور نبی پر ایمان لائے ،لیکن جو معجزہ ہمیں دیا گیا وہ وحی یعنی قرآن کا معجزہ ہے۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ روزہ محشر میرے امتی تمام انبیاء  سے تعداد میں زیادہ ہونگے۔ 
مذکورہ بالا حدیث سے یہ  نتیجہ سامنے  آتا ہے کہ قرآن کریم  محدود  زمان  و مکا ن کے لیے معجزہ نہیں ہے جیسا کہ دوسرے  انبیا کرام کو محدود و معین زمان و مکان کے لیے عطا ہوا تھا، چونکہ ہمارے نبی ؐکی شریعت ابدی  ہے اسی لیے آپؐ کا  یہ معجزہ بھی لازوال ہے۔

بے نظیر و بے مثل
قرآن پاک نے تمام جن و انس کو مخاطب کرکےاعلان کیا کہ ساری مخلوقات اپنی اجتماعی کاوشوں کے باوجود اس کا مثل لانے سے مجبور و ناچار ہیں۔
ارشاد باری تعالٰی ہے
قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا(بنی اسرائیل ایہ۸۸)
کہدیجئے: اگر انسان و جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کو شس کریں تو وہ اسکی  مثل لا نہیں سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے  کا ہاتھ بٹائیں۔
یہ  بات تو پورے قرآن کی تھی لیکن پھر پروردگار عالم نے مخالفین کے لیے چلنج کو   ہلکا کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کا مثل تو در کنار تم اس کے مثل دس سورتیں ہی لے آؤ۔ 

ارشاد رب العزت ہوا
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(ہود ایہ ۱۳)
 اگر تم  سچے ہوتو اس جیسی خود ساختہ  دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس کو بلا سکتے ہو بلا لاؤ۔
جب معترضین و مخالفین سے یہ بھی نہ بن پڑا  اور وہ بے بس نظر آئے تو پروردگار عالم نے چلنج کو بالکل  آسان کر دیا اور کہا تم  فقظ ایک سورہ کا  جواب لے آؤ۔

ارشاد رب العزت ہوا
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(البقرہ ایہ ۲۳)
 اگر تم لوگوں کو اس (کتاب) کے بارے میں شبہ ہو  جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے اس  جیسا کوئی سورہ بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے حامیوں کو بھی بلالو ،اگر تم سچے  ہو۔
مخالفین اس چلنج و تحدی کا بھی کوئی جواب نہ لا سکے اور  اس طرح  عالم کفر ابدلآباد تک ناکامی سے دو چار ہوا ، اور پھر خداوند عالم نے ارشاد فرمایا اب تمہارا مقدر جہنم کی  دھکتی ہوئی آگ ہے۔

ارشاد رب العزت ہوا
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ(البقرہ ایہ۲۴) 
اگر تم نے ایسا نہ کیا اور ہرگز نہ کر سکوگے تو اس آتش سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور یہ آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
اس طرح بشریت قاصر رہی کہ قرآن کےکسی ایک جزء کا جواب لاسکے اور ساتھ ہی ولن تفعلوا کے ذریعہ قاطعانہ پیشنگوئی  بھی کی کہ تم مستقبل میں بھی ہرگز یہ کام نہ کر سکو گے اور ہوا بھی یہی آج انسانی علوم فنون تمام ارتقائی مراحل و منازل طے کرنے کے باوجود دم بخوردہ ہے اور اپنے اندر استطاعت و قوت پیدا نہیں کر پا رہے ہیں کہ اس کے کسی جزء کا جواب لائیں۔
یہ قرآن کا اعجازہی نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر یہ کتاب الہامی نہ ہوتی تو  مثل  دیگر آسمانی کتابوں کے اس کے مماثل  کئی نسخے معرض وجود میں آچکے ہوتے۔

آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لا یزال است وقدیم

حکمت والا قرآن وہ کتاب زندہ ہے جس کی حکمت لا زوال اور قدیم ہے

جاری۔۔۔
 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .