۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
محسن علی اصغری،گھوٹکی سندہ

حوزہ/ آپ (ع) کی زندگی کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ کسی قوم کا اپنے رہبر و رہنما پر غیر متزلزل اعتماد اسے کامیابی کی منزل سے قریب کر دیتا ہے اور عبرت یہ ہے کہ کس طرح جاہل کم عقل اور سطحی سوچ رکھنے والے افراد ایک جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدل لیتے ہیں اور امّت پھر تاریکیوں میں چلے جاتی ہیں تب تک اس تاریکی میں رہتی ہے جب تک کوئی کربلا برپا نہ ہوجائے۔

تحریر: محسن علی اصغری،گھوٹکی سندہ

حوزہ نیوز ایجنسی یوں تو امیر المومنین حضرت علی ابن ابیطالب (ع) کی پوری زندگی سبق موز اور قابلِ تقلید ہے، کیونکہ آپ (ع) کی حیاتِ مبارک کا ہر ہر پل رضائے الٰہی کے حصول میں بسر ہوا، لیکن فی الحال ہم آپ (ع) کے دورِ خلافت میں درپیش مشکلات کا جائزہ لے کر اپنی انفرادی کردار سازی اور قومی و اجتماعی کردار کی تعمیر میں اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، آپ (ع) کے مدمقابل ویسے تو اس وقت بہت سی قوتیں تھی مگر کچھ ایسے لوگ جس نے اندر ہی اندر سے اس مقدس مقصد کو نقصان پہنچانے میں ذرا بھی رحم نہیں کیا جوکہ آپ (ع) کی مظلومیت کی وجوہات بنی، جوکہ آج تک چلتی آرہی ہیں: 

حسد:
اپنے ہی لوگوں کی جانب سے اپنے ہی رہبر کیخلاف حسد کرنا جس کے بابت آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’جب حسد کی بارش برستی ہے، تو فساد اور تباہی کی نشوونما کرتی ہے۔‘‘ (غرر الحکم ۔ش٥٢٤٢) 

مقام و منصب کی خواہش:
دین کی اطاعت کرنے میں سودے بازی کرنا کیونکہ اگر مقدس جدوجہد کے دوران ان کا مقصد مقدس اہداف کو اولیت دینے کی بجائے عہدے و مقام کے حصول کو اہمیت دینا ہو جائے،  تو اس سے بجائے اصلاح اور بہتری کے معاشرے میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑکتی ہے۔ 

جمود:
سوچ کا ایک جگہ یوں جمع ہوجانا کہ جیسے عقل کا پیہہ جام ہوگیا ہو اور آگے کسی بھی ہدف کیلئے جدوجہد کرنے سے قاصر ہوں اور وہ ہی اپنے آباو اجداد کی پیروی کو ہی کافی ماننا- 

خشک مغز:
یعنی کم عقل اور معمولی معمولی بات پر اپنی رائے بدل لینے والے لوگ ان کے اپنے جہل، جمود اور سطحی اندازِ فکر کی بنا پر دشمن کے فریب کا دانستہ یا غیر دانستہ طور پر شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے ہی سردار کی مخالفت کرتے ہیں- 

خشک تقدس:
یعنی مذہب کا جامع اور گہرا نظریہ نہ رکھنے والے لوگ، اس قسم کے لوگ عبادات اور قرآن کی تلاوت پر صریحً پابندی کے باوجود دین کی روح اور اس کی سچائی ، مترجم اور مذہب کے مجسم ، یعنی امامت و سرپرستی اور خدا کی اطاعت سے غافل رہتے ہیں-
اِن تین اقسام کے لوگوں کیلئے شاعر مشرق فرماتے ہیں:
کیا اے امامِ عاشقانِ دردمند!
یاد ہے مجھ کو ترا حرفِ بلند
خُشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست،
دَورِ حاضر مستِ چنگ و بے سُرور
بے ثبات و بے یقین و بے حضور
کیا خبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا
دوست کیا ہے، دوست کی آواز کیا
آہ، یورپ بافروغ و تاب ناک
نغمہ اس کو کھینچتا ہے 

عدالت پر بے اعتمادی اور ہمعصر اصحاب کا نہ ملنا:
عام طور پرحضرت علی (ع) کے لیے دشواریاں ایجاد کرنے والوں کے طور پر آپ (ع) کے کھلے دشمنوں کے تذکرے پر ہی اکتفائی کیا جاتا ہے۔ جبکہ آپ (ع) کی عادلانہ روش آپ (ع) کے کچھ اقرباء اور آپ (ع) کے بعض دیرینہ ساتھیوں کے لیے بھی ناقابلِ برداشت تھی، جو آپ کے لیے مشکلات میں اضافے کا موجب بنی۔
آپ (ع) ایک شعر کو نقل کرتے ہوئے اپنا احساس بیان کرتے ہیں:
اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم، مجھے تو اس برتن کی تہہ میں لگی ہوئی چکنائی ہی ملی ہے۔ 

حوصلہ شکنی اور دشواریاں پیدا کرنا:
اپنے ہی لوگوں کی جانب سے مختلف طریقہ کاروں سے رکاوٹیں پیدا کردینا اور پھر حوصلہ شکنی کرنا، ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں بار بار یہ بیان کیا گیا ہے کہ کافروں اور انبیاء کرام کے مخالفین اور مومنین ان کو ہر قسم کی بہتری اور بدانتظامیوں کے ذریعہ ملک سے نکالنا چاہتے تھے تاکہ ان کی بغاوت ، بدعنوانی اور جنونیت کی راہ ہموار ہو اور کچھ اور ان کے بدصورت اور آلودہ اعمال کو پریشان کرو۔  مشرکین قریش نے انتہائی نیک اور اعلیٰ انسان ، اسلام کے پیغمبر اسلام کی بہتان کی ، اور اسے جادوگر ، پادری ، شاعر ، اور پاگل کہا ، اور اسی طریق کار اور منصوبے کو خدا کے دوسرے نبیوں اور مقدس بندوں پر لاگو کیا۔  مومن کو پہلے دین کی تعلیمات ، اصول ، رہنما اصول ، خصوصیات اور درجات سے واقف ہونا چاہئے ، اور اپنے فرائض ، ذمہ داریوں اور ذمہ داریوں کو صحیح اور واضح طور پر جاننا چاہئے ، اور اس سلسلے میں کوئی مبہم نہیں ہونا چاہئے ، اور پھر عمل کرنے کے طریقے میں خدائی فرائض اور شرعی احکام کے مطابق براہ راست اور ثابت قدم رہنا چاہئے ، اور اسے جاہل لوگوں ، مخالفین ، مخالفین ، اور غیر مہذب اور کمزور انسانوں کی تضحیک ، الزام تراشی ، طنز سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے ، اور اسے خوش اور پر اعتماد ہونا چاہئے۔ اس الہی وعدہ میں ، جس کا ارشاد ہے: اے ایمان والو ، خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے عمل کو ثابت کرے گا۔  اے ایمان والو ، اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے نقش قدم پر قائم رہے گا۔ 

نتیجہ:
آپ (ع) کی زندگی کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ کسی قوم کا اپنے رہبر و رہنما پر غیر متزلزل اعتماد اسے کامیابی کی منزل سے قریب کر دیتا ہے اور عبرت یہ ہے کہ کس طرح جاہل کم عقل اور سطحی سوچ رکھنے والے افراد ایک جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدل لیتے ہیں اور امّت پھر تاریکیوں میں چلے جاتی ہیں تب تک اس تاریکی میں رہتی ہے جب تک کوئی کربلا برپا نہ ہوجائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .