۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 368115
30 اپریل 2021 - 03:08
مولانا محمد رضی مہدوی

حوزہ/قرآن کریم دنیا کی واحد ایسی کتاب ہے جسمیں تا قیامت آنے والی تمام چیزوں کو بیان کردیا گیا ہے اس کتاب کو پڑھنے والاجس ذوق کا مالک ہوتا ہے اسے تلاش کر لیتا ہے۔

تحریر: مولانا محمد رضی مہدوی،استاد جامعہ امام صادق ؑجلالپور امبیڈکر نگر جلالپور

حوزہ نیوز ایجنسی دنیا کی تمام کتابیں اپنے اندر کوئی نہ کوئی جذابیت رکھتی ہیں اسکا لکھنے والا کئی کتابوں کا مطالعہ کرتاہے جدید و اہم موضوع تلاش کرتا ہے اسکے بعد اپنی فکر تحریر میں لاتا ہے اسے جذاب بنانے کیلئے نئے اسلوب تیار کرتاہے ،اصول تحریر ،قواعد و ادب لسانی کی رعایت کرتا ہے عمدہ عبارت اور نئے مضامین سے اسے سجاتا ہے تاکہ ہر انسان اسکی تحریر سے استفادہ کر سکے ۔ 

وہ تحریر اپنے موضوع ،عبارت،مضامین اور لکھنے والے کے نام سے شہرت پاتی ہے  کسی کو اسکا موضوع پسند ہوتا ہے تو کسی کو اسکی عبارت ،بعض افراد کسی تحریر کو اسکے لکھنے والے کے نام سے ہی پڑھتے ہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ تحریر دیر پا نہیں ہوتی چند مہینے یا سال کے بعد اسکا موضوع پرانا ہو جاتا ہے اسکی عبارت نئی نسل کے لئے بوجھ لگتی ہے گویا دھیرے دھیرے اسکے اثرات لوگوں کے ذہن سے غائب ہوجاتےہیں زمانہ گذرتا جاتا ہے نئی نسل اسی مضمون کو جدید اسلوب میں تحریر کرتی  ہےاور دوبارہ اسے اس لائق بناتی ہے کہ نوجوان طبقہ دلچسپی سے پڑھے ۔

لیکن قرآن کریم دنیا کی واحد ایسی کتاب ہے جسمیں تا قیامت آنے والی تمام چیزوں کو بیان کردیا گیا ہے اس کتاب کو پڑھنے والاجس ذوق کا مالک ہوتا ہے اسے تلاش کر لیتا ہے ڈاکٹر اسمیں طبی نسخے تلاش کرے مایوس نہیں ہوگا ،سائنسداں نئی ایجادات کیلئے اسمیں غور و خوض کرتا ہے تو نئی  نئی ایجادات اسکے ذہن میں جنم  لینے لگتی ہے ۔
یہ عظیم کتاب کسی خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہےبلکہ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے اور چراغ ہدایت  اسکو پڑھنے والا  تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتا اسکے الفاظ میں شیرینی پائی جاتی ہے  اسکی عبارت (آیات)نوجوان نسلوں کیلئے مقصد اور جینے کی چاہ پیدا کرتے ہیں اسکے مفاہیم میں انسانیت کی آواز اور پرواز کی کیفیت پائی جاتی ہے اسکے مضامین میں  کہنگی کے آثار تک نظر نہیں آتے اسکے الفاظ میں معانی کے سمندر پائے جاتے ہیں  جسکی گہرائی تک جانا ہر ایک کے بس میں نہیں ہے ،کیونکہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے( قد جائکم من اللہ)  اسمیں دلوں کی بیماری کا علاج ہے  (شفاء لما فی الصدور) یہ کتاب لوگوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی کیطرف لے جاتی ہے ( لتخرج الناس من الظلمات الی النور) یہ ایسی کتاب ہے جو اس کے ذریعہ  روشنی طلب کرے اللہ اسے منور کرتا ہے (من استضاء بہ نورہ اللہ) یہ ایسا دریا ہے جسکی تہ تک رسائی ممکن نہیں (و بحرا لا یدرک قعرہ)  یہ ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا گمراہ نہیں ہوتا  (منھاجا لا یضل نھجہ) یہ علم کے چشموں اور سمندروں سے عبارت ہے (ینابیع العلم و بحورہ) اسمیں عدل کا چمن اور انصاف کا حوض ہے ( و ریاض العدل و غدرانہ) اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس ہے (اثافی الاسلام و بنیانہ) وہ منزل ہے جسکی راہ پر چلنے والے مسافر بھٹک نہیں سکتے(ومنازل لایضل نھجھا المسافرون)یہ وہ کتاب ہے جسے کوئی جابر مسترد کردے تو خدا اسے ہلاک و نابود کردے گا ( ھو الذی من ترکہ من جبار قصمہ اللہ)یہ وہ کتاب ہے کہ مختلف خواہشات اسمیں تبدیلی نہیں لا سکتیں ( ھو الذی لا تزیغ بہ الاھواء) اسلام دشمن نے بہت کوشش کی کہ اس کتاب کی  دوسری آسمانی کتابوں کیطرح  رد و بدل اور ترمیم کے ذریعہ اسلام کی اساس و بنیاد کو منہدم کر سکے  لیکن انکے پاس کوئی ایسا ہتھیار نہیں جو قرآن کریم کو بے وقعت ثابت کرسکے،کیونکہ خدا نے وعدہ کیا ہے ہم نے اسے نازل کیا ہے ہم ہی اسکی حفاظت کریں گےلہذا دشمنان اسلام کی تمام تر کوششیں ناکام تھیں اور ہمیشہ رہیں گی ۔

یہ کتاب انسانی زندگی کے اصول بیان کرتی ہے جس پر عمل کرنے سے بہترین معاشرہ تشکیل پاتا ہے ،جسکے مطابق زندگی گذارنا  دنیوی و اخروی کامیابی کی ضمانت ہے۔

آئیے قرآن کے انسان ساز اصول سےچند کو بیان کرتے ہیں جس پر عمل کرنا تمام مسلمانوں کا اہم فریضہ ہے۔ 

۱۔تقویٰ اختیار کرو   ۔ سورہ بقرہ آیت  ۲۸۷  
۲۔ تقویٰ ، پرہیزگاری اور نیکیوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دو ۔ سورہ مائدہ آیت ۲
۳۔اپنے عہد و پیمان اور معاملات کی پابندی کرو ۔سورہ مائدہ آیت ۱
۴۔لوگوں سے اچھی باتیں کرو ۔سورہ بقرہ  آیت ۸۳ 
۵۔اپنے گھروں کے علاوہ کسی کے گھر میں داخل نہ ہو ۔سورہ نور آیت ۲۷ 
۶۔اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں  ۔ سورہ نور آیت ۳۰ 
۷۔ ایک قوم دوسری قوم کا مسخرہ نہ کرے ۔ سورہ حجرات آیت ۱۱

اسکے علاوہ بیشمار اصول ہیں جو انسانیت کو معراج عطا کرتے ہیں   جو کتاب  انسانی زندگی کے اتنے اہم اصول کو بیان کرتی ہے  اس کتاب کو پوری دنیا کے لوگوں کو قبول کرنا چاہئے پڑھنا چاہئے اور عمل کرنا چاہئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .