تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی। کرونا کے روزافزوں واقعات نے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورےعالمی نظام صحت کی قلعی کھول کر رکھ دی۔امریکہ جیسی عالمی طاقت نے کورونا وبا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور دیگر بڑی طاقتیں شکست تسلیم کرچکی ہیں ۔ہندوستان میں کورونا کے بڑھتے ہوئے واقعات نے یہ ثابت کردیاکہ ہمارا نظام صحت انتہائی ناقص ہے ۔ ہماری سرکار فقط نعروں میں یقین رکھتی ہے مگر زمینی سطح پر اس کا ہر عمل بے کار اور ہر دعویٰ کھوکھلا ثابت ہواہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کو ’وشووگرو‘ بنانا چاہتے تھے مگر بھارت کا نظام صحت تو اپنے لوگوں کی زندگیاں بچانے میں ہی ناکام ہے تو بھلا دوسروں کی مدد کیسے ممکن ہے ۔وزیر اعظم نے ’خودکفیل اور خود انحصار‘ بھارت کا نعرہ دیاتھا جو بے اثر اور بے سود ہے کیونکہ جب ہماری سرکاری اپنے عوام کی زندگیاں بچانے میں ناکام اور طبی شعبے میں نااہل ثابت ہوچکی ہے تو ہم ’خود کفیل اور خودانحصار ‘ ملک کی بنیاد کیسے رکھ سکتے ہیں ۔ہمارے پاس انسانی زندگیاں بچانے کے لیے بنیادی سہولیات کا فقدان ہے مگر ہم ’وشوو گرو‘ بننے کا دعویٰ کررہے ہیں !ہمیں اپنے سیاسی رہنمائوں پر افسوس ہوتاہے کہ جنہیں صرف سیاسی نعرے بازی میں دلچسپی اور نفرت کی کھیتی کرنے میں مہارت ہے مگر وہ انسانی زندگیوں کو بچانے میں بالکل ناکام ہیں ۔ایسے ناکام رہنما نہ بھارت کو ’وشوو گرو‘ بناسکتے ہیں اور نہ ’خود کفیل اور خود انحصار‘ ہندوستان کے خوب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتےہیں۔
ہندوستان میں کورونا تیزی کے ساتھ بڑھ رہاہے ۔ہر عمر کے لوگ اس سے متاثر ہورہے ہیں اور اسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔متاثرین کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ اسپتالوں کے باہر ایڈمٹ ہونے کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگی ہیں ۔لوگ آکسیجن کی کمی کے باعث مرر ہے ہیں ۔آکسیجن سینٹرز پر مریضوں کے تیمارداروں کا جم غفیر ہے مگرسب کو آکسیجن نہیں مل پارہی ہے ۔میڈیکل اسٹورز پر دوائیوں کی قلت ہے۔نقلی دوائوں کا بازار گرم ہے اور ضروری ادویات کی کالابازار عروج پر ہے ۔اس کے برعکس ہماری حکومت مطمئن ہے اوروزیر اعظم فقط احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دے رہیں۔جبکہ ایسی ناگفتہ بہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے انہیں فوری طورپر ضروری اقدامات کرنے چاہئیں تھے ۔مگر وزیر اعظم صرف باتیں کرتے ہیں ۔انہیں انتخابی جلسوں میں تقریریں کرنے میں لذت ملتی ہے اور جب انہی انتخابی ریلیوں سے کورونا قہر بن کر ٹوٹتاہے تو وہ شترمرغ کی طرح ریت میں سر ڈال کر آنکھیں موند لیتے ہیں ۔اگر بنگال اور دیگر ریاستوں کی انتخابی ریلیوں میں کورونا کی احتیاطی تدابیر کو نظر انداز نہ کیا گیاہوتا تو ان ریاستوں میںمریضوں کی تعداد اس قدر نہیں بڑھتی ۔مگر ووٹ کی سیاست زندگیوں کی اہمیت کو نہیں سمجھتی ۔نتیجہ یہ ہواکہ بنگال سمیت دیگر ریاستوں میں لوگ مررہے ہیں اور وزیر اعظم ’من کی بات‘ میں فقط تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں ۔جن احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے لیے وزیر اعظم عوام سے گذارش کررہے ہیں ان احتیاطی تدابیر پر انہوں نے خود عمل کرنے سے گریز کیا ۔بنگال اور دیگر ریاستوں کے انتخابی جلسوں میں وزیر داخلہ امیت شاہ بغیر ماسک کے تقریریں فرماتے رہے ۔انہیں کسی نے ماسک پہننے کا مشورہ نہیں دیا ۔جب ملک کا وزیر داخلہ ہی احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرے تو عوام سے کیاتوقع کی جاسکتی ہے ۔بغیر ماسک کے گھر سے باہر نکلنے والوں پر پولیس کی زیادتیاں کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں مگر سیاسی رہنمائوں کے ماسک نہ پہننے پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی ۔ہمارے قانونی نظام کا یہی دوہرا معیار ہمارے’وشووگرو‘ بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔یہاں سیاست مداروں کے لیے الگ قانون ہے اور سادہ لوح عوام کے لیے الگ ۔دولت مندوں کے لیے سرکاری سہولیات ہمہ وقت میسر ہیں مگر غریب اور ناداروں کے لیے سرکاری مشینری کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔ہمارے ’خود کفیل اور خود انحصار‘ ہندوستان کی یہی کہانی ہے ۔
اللہ جانے وزیر اعظم کس بنیادپر بھارت کو ’وشوو گرو‘ بنانے کا خواب دکھارہے تھے ۔آیا ایسا ملک ’وشوو گرو‘ بن سکتاہے جو اپنے ہی عوام کی مددکرنے سے معذورہو؟۔گذشتہ سات سالوں میںبی جے پی سرکار نے صحت کے شعبے میں کوئی پیش رفت نہیں کی ۔کورونا وبا کو ایک سال سے زیادہ کاعرصہ بیت چکاہے مگر ایک سال کے بعد بھی ہماری سرکار اس وباسے نمٹنے میں ناکام ہے کیونکہ سرکار مطمئن تھی کہ کورونا ختم ہوچکاہے اور اب دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے گا ۔ایک سال کی مدت میں نہ اسپتالوں کے نظام کو بہتر کیا جاسکا اور نہ آکسیجن سینٹرز میں اضافہ ہوا۔کورونا کی ویکسین بھی اپنے عوام کے بجائے دیگر ملکوں کو سپلائی کردی گئی تاکہ ہم ’وشوو گرو‘ بن کر ابھر سکیں ۔مگر جب ہندوستان میں کورونا کا قہر برپا ہوا تو معلوم ہواکہ اپنے عوام کے لیے ہی ویکسین ذخیرہ نہیں کی گئی ۔حال یہ ہے کہ اکثر ریاستوں میںویکسین ختم ہوچکی ہے اورلوگوں کی زندگیاں موت کے سائے میں بسر ہورہی ہیں ۔اس کے باجوودوزیر اعظم نے ’ٹیکہ اتسوو‘ منانے کا اعلان کردیا جو انتہائی غیر ذمہ دارانہ فعل تھا ۔ہندوستان میں ویکسین سینٹرز بند ہورہے تھے اور وزیر اعظم ’ٹیکہ اتسوو‘ منانے کی اپیل کررہے تھے ۔ان کا یہی غیر سنجیدہ رویہ ہمیشہ قابل تنقید رہاہے مگر انہیں نہ تنقید کی پرواہ ہے اور نہ وہ اپنے ناقدوں کو کوئی اہمیت دیتے ہیں ۔اگر کوئی حد سے متجاوز تنقید کرتاہے تو اس کی لگام ’انکم ٹیکس ‘ اور ’سی بی آئی ‘ کے ذریعہ کَس دی جاتی ہے ۔کاش وزیر اعظم ’اداکاری ‘ چھوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے۔مگر اب ان سے یہ امید کرنا بھی فضو ل ہے ۔کیونکہ ان پر ’ٹیگور‘ بننے کی دُھن سوار ہے جبکہ وہ ’ٹیگور ‘ کی عظمت کے راز سے بھی ناواقف ہیں ۔
ہندوستان میں کورونا سے ہونے والی اموات کے اعدادوشمار بھی درست معلوم نہیں ہوتے ۔اگر اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کی بات کی جائے تو ہر طرف موت کا ننگا ناچ جاری ہے ۔گلی محلوں سے جنازے نکلتے دکھائی دے رہے ہیں ۔قبرستانوں میں قبریں کھودنے والوں کی کمی ہے اور شمشان گھاٹوں پر ’انتم سنسکار ‘ کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑرہاہے ۔یہی صورتحال بنارس اور دیگر شہروں کی بھی ہے ۔دہلی اور مہاراشٹر کا تو اس سے بھی برا حال ہے ۔قبرستانوں میں مردوں کو دفنانے کی گنجائش نہیں رہی اور شمشان گھاٹ پر ’انتم سنسکار ‘ کے لیے لکڑیاں ختم ہوگئی ہیں ۔اس کے باجود حکومت صحیح اعدادوشمار چھپارہی ہے ۔یوں بھی سرکاری اعدادوشمار کب صحیح ہوتے ہیں ۔ہمیشہ ہر معاملے میں سرکار حقیقت چھپالیتی ہے اور جو بتلایاجاتاہے وہ آدھاادھورا سچ ہوتاہے ۔بیچاری عوام اسی پر یقین کرلیتی ہے اور سرکار سے غیر ضروری توقعات وابستہ کرلیتی ہے ۔مگر اس بارذرا مختلف ہوا ۔سرکار کے ذریعہ جاری اعدادوشمار پر عوام کو ذرہ برابر اعتبار نہیں ہے کیونکہ لوگ اپنی آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہے ہیں ۔اسپتالوںاور اسپتالوں کے باہر دم توڑتے مریضوں کی تعداد ہی سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے ۔اموات کے اعدادوشمار کو چھپانے کے بجائےاگر لوگوں کو بچانے پر توجہ دی جاتی تو شاید صورتحال مختلف ہوتی ۔مگر سرکار کو لوگوں کی زندگیوں سے زیادہ اقتدار کی کرسی عزیز ہے جس کے لیے وہ کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی ۔
وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ تقریروں اور من کی بات کے بجائے زمینی حقیقت کو سمجھیں ۔ان کی انانیت اور خوش فہمی نے ہندوستان کو اس نازک موڑ پر لاکھڑا کیاہے ۔انہیں اقتدار کی کرسی سے زیادہ انسانی زندگیوں کی فکر ہونی چاہیے۔ اقتدار تو کھوکر دوبارہ حاصل کیا جاسکتاہے مگر انسانی زندگی کو ایک بار کھوکر دوبارہ نہیں پایا جاسکتا۔اگر انہوں نے انتخابی ریلیوں سے زیادہ صحت عامہ کے لیے کام کیا ہوتا تو حالات بدل سکتے تھے ۔مگر انہیں تو عوام کے تحفظ سے زیادہ بنگال میں ممتا بنرجی کی کرسی پلٹنے میں دلچسپی تھی ۔بنگال کے انتخابی نتائج کسی کے بھی حق میں ہوں مگر وہاں انسانیت ہار رہی ہے ۔جنازوں کی بھیڑہے ۔اسپتالوں میں لوگ دم توڑ رہے ہیں اورغریب اسپتال کے باہر بھوک سے مررہاہے ۔ایسے حالات میں انتخابات میں حصہ لینا قرین عقل نہیں تھا ۔سرکار کو الیکشن کمیشن سے انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے گذارش کرنی چاہیے تھی مگر جس سرکار کا سارا دھیان حصول اقتدار پر ہو وہ بھلا یہ مطالبہ کیسے کرسکتی تھی؟۔الیکشن کمیشن جو زعفرانی کمیشن میں تبدیل ہوچکاہے اسے بھی انسانی زندگیوں کی پرواہ نہیں ہے ۔کورونا وبا کے دنوں میں پورا ملک ووٹوں کی لائن میں کھڑاہے اور سرکاریں ’ویک اینڈ لاک ڈائون‘ نافذ کرکے کورونا پر قابو پانے کے خواب دیکھ رہی ہیں ۔الیکشن کمیشن کی غفلت اور لاپرواہی نے ملک کے عوام کو موت کے بازار میں لاکھڑاکیاہے ۔مدراس ہائی کورٹ کا تبصرہ بجاہے کہ الیکشن کمیشن پر انسانوں کے قتل کے جرم میں مقدمات دائر ہونے چاہئیں ۔آیا ایسا ممکن ہے ؟ اگر الیکشن کمیشن پر عدالتیں کاروائی کرتی ہیں تو شاید اس کے ذمہ دار افسران کو سزا مل سکے ۔مگرہمیں یقین ہے کہ زعفرانی تنظیمیں اپنے آلہ ٔ کاروں پر کوئی حرف نہیںآنے دیں گی ۔ سرکار اور زعفرانی تنظیموں کی نگاہ میں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔انہیں اقتدار عزیز ہے ،خواہ وہ کسی بھی قیمت پر حاصل ہو۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔