۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
News ID: 368094
29 اپریل 2021 - 14:54
علی ہاشم عابدی

حوزہ/ دنیا میں لوگ عادلانہ نظام کی توقع کرتے ہیں لیکن علی علیہ السلام وہ مظلوم ہیں کہ جنکے عادلانہ نظام سے لوگ عاجز نظر آئے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی تاریخ اور اس کے بعد امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کی تاریخ آنے والی ہے۔ 
ظاہر ہے یہ خوشی اور غم کے ایام صرف خوشی منانے اور غم منانے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ان الہی رہبران کی شخصیت اور سیرت سے کچھ سیکھنے کا جہاں بہترین موقع ہوتا ہے وہیں ان کے زمانے کے حالات اور انکو درپیش مشکلات کو سمجھنے کا بھی بہترین وقت ہوتا ہے۔ 
آخر کیا وجہ تھی کہ کیوں امیرالمومنین علیہ السلام جیسے عادل پیشوا اور حاکم کو پہلے حکومت سے محروم کیا گیا جس کے نتیجہ میں 25 برس تک خاموشی اور خانہ نشینی کی زندگی بسر کرنی پڑی، اور جب 25 برس بعد حکومت ملی بھی تو چار برس چند ماہ بعد ہی آپ کو محراب عبادت میں شہید کر دیا گیا؟ 
جب کہ آج بھی مسلمان تو مسلمان غیر مسلم مورخین و محققین بھی آپ کے عادلانہ نظام کی تعریف اور کلمہ پڑھتے نہیں تھکتے بلکہ بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل سب کو اقرار ہے اگر دنیا میں کبھی عادلانہ نظام قائم ہوا جسمیں انسانی اقدار کو جلا ملی، بشریت کو تحفظ نصیب ہوا اور سب نے امن و سکون کی سانس لی تو وہ امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت تھی، ایسا حاکم جس کا معیار زندگی سماج کے سب سے نچلے طبقہ کے برابر تھا، جس نے گیہوں کے بجائے جو کی سوکھی روٹی کے چند لقموں پر گذارا کیا کہ کہیں مملکت میں کوئی بھوکا نہ سویا ہو، غلام کو بہترین لباس عطا کر کے خود معمولی لباس پر اکتفاء کی، مسلمان تو مسلمان غیر مسلم عورت پر ظلم ہوا تو علی علیہ السلام بے چین ہو گئے، عیسائی بوڑھے کو بھیک مانگتے دیکھا تو بے قرار ہو گئے، کوفہ کی چلچلاتی دوپہر میں گھر کے باہر کھڑے ہیں کہ کہیں کوئی مظلوم آئے تو خالی ہاتھ واپس نہ چلا جائے، شدید سردی کے موسم میں بھی یہ احتیاط کہ اگر کوئی سرد رات میں فریاد لے کر آئے تو اسے مایوسی نہ ہو۔ بیت المال سے جتنا اپنے غلام قنبر کو عطا کرتے اتنا ہی خود لیتے۔ 

تو آخر کیوں انکو شہید کیا گیا؟ 
تو اس کا صرف ایک ہی جواب ہے "کثرت عدالت"۔ 
اور ایسی عدالت غیر تو غیر خود اپنے بھائی بہن بھی جسے برداشت نہ کر سکے۔ 
دنیا میں لوگ عادلانہ نظام کی توقع کرتے ہیں لیکن علی علیہ السلام وہ مظلوم ہیں کہ جنکے عادلانہ نظام سے لوگ عاجز نظر آئے۔
ظاہر ہے اپنی غلطیوں پر وکالت اور دوسروں کی خطاوں پر فیصلہ سنانے والے ایسے عادلانہ نظام کو نہیں برداشت کر سکتے تھے۔ 
امام علی علیہ السلام کا جو ظاہر تھا وہی باطن تھا تو موقع کے مطابق چہرے بدلنے والے کیسے انہیں برداشت کرتے جس کے نتیجہ میں کثرت عدالت کے سبب محراب عبادت میں شہید کر دئیے گئے۔
اور آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام جہاں امام ہوئے وہیں حاکم بھی ہوئے، خیر امامت تو الہی عہدہ تھا جس میں کسی بندے کا کوئی دخل نہیں لیکن حکومت لوگوں کے نفاق اور خیانتوں کے سبب چھ ماہ سے زیادہ نہ چل سکی اور صلح پر جس کا خاتمہ ہوا۔ 
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ چاہے حکمیت کا مسئلہ ہو یا صلح کا معاملہ ہو دونوں مسئلوں میں کیوں اسلامی حاکم مظلوم واقع ہو گئے جب کہ ان کے پاس حکومت تھی، فوج تھی، لشکر تھا، افراد بھی تھے۔ 
تاریخ کے اوراق میں ایک اہم وجہ پوشیدہ ہے جس کی جانب خود سرکار سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں اشارہ فرمایا تھا اور وہ "لوگ دنیا کے بندے ہیں اور دین تو فقط انکی زبان کا چٹخارہ ہے، جب تک دین انکی دنیا میں رکاوٹ نہیں بنتا تب تک وہ دیندار ہوتے ہیں لیکن جب امتحان کا وقت آتا ہے تو دیندار کم ہو جاتے ہیں۔" 
امیرالمومنین علیہ السلام کا لشکر ہو یا امام حسن مجتبی علیہ السلام کی فوج ہو۔ دونوِں جگہ کئی طرح کے لوگ تھے۔ 
۱. مخلص چاہنے والے اور اطاعت کرنے والے جنکی تعداد انگشت شمار تھی۔ 
۲. ‌خارجی جو نہ امیرالمومنین علیہ السلام کو چاہتے تھے اور نہ ہی حاکم شام کو، جنکا مقصد دونوں کا خاتمہ تھا، ظاہر ہے ایک ساتھ دونوں کو ختم کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے ایک سے مل کر دوسرے کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ 
۳. ‌بنی امیہ کے طرفدار جو صرف ظاہر میں آپ کے ساتھ تھے۔ 
۴. مال غنیمت کے لالچی جنکی نظر صرف مال دنیا پر تھی۔ 
۵. ‌بے طرف لوگ جنکو کسی سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔ 
مذکورہ نکات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ اس طرح ہوں اور فکر ایسی ہو تو علی علیہ السلام جیسا عادل اور حکیم حاکم بھی اپنی ہی مملکت میں شہید ہو جاتا ہے اور امام حسن مجتبی علیہ السلام صلح پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
دور حاضر کی بھی صورت حال یہی ہے، ایک جانب کرونا وبا بشریت کو اپنی لپیٹ میں لینے کے درپے ہے لیکن اس کے باوجود پچھلے برس منحوس ٹرنپ کے "welcome" سے پورے ملک کی سلامتی کو داوں پر لگا دیا گیا تو اس برس انتخابات نے جان لیوا وبا کرونا کو موقع فراہم کیا جب کہ ملک کی سالمیت کو ہر حال میں اولیت حاصل ہے کہ جب عوام ہی نہ ہوں گے تو منتخب حکام کس پر حکومت کریں گے۔ 
دوسری جانب کبھی قرآن کریم کی آیات کو زیر سوال لا کر تو کبھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفیع شان میں گستاخی کر کے قوم کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے، اور اسی پر اکتفاء نہ ہوئی بلکہ جو کسر بچی تھی وہ شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے الیکشن نے پوری کر دی، اگرچہ جو برات نامہ اب آ رہے ہیں وہ الیکشن سے پہلے آنے چاہئیے تھے تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔ خیر دیر آید درست آید۔ 
الیکشن کے نتیجہ کے بعد سوشل میڈیا پر مچے گھمسان اور آئے دن مختلف ویڈیو اور آڈیو نے بہت سوں کی حقیقت واضح کر دی، چہروں سے نقابیں الٹ گئی، بے دین چہروں سے دینداری اور مولائیت کا ماسک نچ گیا۔آخر میں یہی سمجھ میں آیا لوگ بھی وہی سوچ بھی وہی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .