حوزہ نیوز ایجنسی। غزوہ بدر یا بدر الکبری: سب سے پہلی اور اہم جنگ تھی جو ـ تاریخ 17 رمضان سنہ 2 ہجری کو بمقام بدر ـ مسلمانوں اور مشرکین قریشکے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ میں گوکہ مسلمانوں کی افراد قوت کم تھی لیکن انھوں نے مشرکین پر فتح پائی۔ تاریخی حوالوں کے مطابق مسلمانوں کی فتح کے اسباب میں ایک اہم سبب مسلمانوں ـ اور بطور خاص علی(ع) اور حمزہ سید الشہداء ـ خاص جانفشانی تھی۔ دو دیگر غزوات بھی بدر کے نام سے مشہور ہیں: بدر الاولی اور بدر الموعد؛ لیکن تاریخی مآخذ میں غزوہ بدر یا جنگ بدر سے مراد بدر الکبری ہی ہے۔
صبح کے وقت پیغمبر(ص) نے اپنے لشکر کی صف آرائی کا اہتمام کیا اور اسی اثناء میں قریش کی سپاہ عَقَنْقَل نامی ٹیلے سے ظاہر ہوئی۔ رسول خدا(ص) نے دیکھا تو بارگاہ احدیت میں التجا کی: "اے رب متعال! یہ قریش ہیں جو غرور و تکبر کے ساتھ تجھ سے لڑنے اور تیرے رسول کو جھٹلانے آئے ہیں؛ بار خدایا! میں اس نصرت کا خواہاں ہوں جس کا تو نے مجھے وعدہ دیا ہے! انہیں صبح کے وقت نیست و نابود کردے"۔رسو خدا(ص) کی سپاہ کی پشت آفتاب کی جانب تھی جب کہ قریشیوں کا رخ آفتاب کی جانب تھا۔ قیادت کا پرچم ـ بنام عقاب جو صرف اکابرین اور خاص افراد کو ملا کرتا تھا، علی ع (ع) کے ہاتھ میں تھا۔
بدر کے مقام پر دو لشکروں کی صف آرائی کا نقشہ
مقبرہ شہدائے بدر کے قریب مسجد العریش
ابتداء میں پیغمبر(ص) نے پیغام بھجوا کر قریش کے ساتھ جنگ اور تقابل کی نسبت ناپسندیدگی ظاہر کی۔ حکیم بن حزام جیسے بعض افراد نے اس پیغام کو منصفانہ قرار دیا اور واپسی کا مطالبہ کیا لیکن ابو جہل کا جنگی جنون اور تکبر آڑے آیا۔
مسلمانوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے لئے ایک سائبان بنایا اور سعد بن مُعاذ سمیت انصار کے چند افراد نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالی؛ تاہممسند ابن حنبل میں علی(ع) سے منقولہ روایت کے مطابق ـ جو زیادہ تر تاریخی منابع میں بھی نقل ہوئی ہے ـ بدر کے روز رسول خدا(ص) کا ٹھکانا دشمن سے قریب ترین نقطے پر تھا اور جب جنگ میں شدت آجاتی تھی تو مسلمان آپ(ص) کی پناہ میں چلے جاتے تھے۔ امکان پایا جاتا ہے کہ متذکرہ بالا سائبان جنگ کی قیادت و ہدایت کے مرکز کے عنوان سے بنایا گیا ہوگا اور رسول اللہ(ص) کبھی کبھی اس میں مستقر ہوتے رہے ہونگے۔
دو بدو لڑائی اور جنگ کا آغاز
دو بدو لڑائی شروع ہونے سے قبل، ابو جہل نے اپنے لشکریوں کے جذبات ابھارنے اور انہیں مشتعل کرنے کی غرض سے "عامر حضرمی" کو حکم دیا کہ اپنا سر مونڈ لے اور سر پر مٹی ڈال کر اپنے بھائی عمرو حضرمی کے خون کا مطالبہ کرے۔ مروی ہے کہ: عامر پہلا شخص تھا جو مسلمانوں کی صفوں پر حملہ آور ہوا تاکہ ان کی صفوں کو درہم برہم کرے؛ لیکن حضرت محمد(ص) کے سپاہیوں نے ثابت قدمی دکھائی فرمان داد تا سر خود را تراشیده، با ریختن خاک بر سر خود، خون برادرش را طلب کند۔گویند: عامر نخستین کسی بود که به صفوف مسلمانان هجوم برد تا صفوف آنان درهم ریزد؛ ولی نیروهایپیامبر(ص) از خود ثبات قدم نشاندادند.ابو جہل اور قریش کی مسلسل طعن و تشنیع نے "عتبہ" کو ـ جو ایسی جنگ میں جس کی آگ بجھانے کے لئے وہ خود کوشاں تھا ـ مجبور کیا کہ پہلے فرد کے طور پر اپنے بیٹوں ولید اور عتبہ کے ہمراہ میدان میں اترے اور دو بدو لڑائی کا آغاز کردے۔
رسول خدا(ص) نے اپنے چچا حمزہ، علی (ع) اور عبیدہ بن حارث کو میدان میں بھیجا؛ حمزہ نے عتبہ کو ہلاک کیا اور علی(ع) نے ولید کو اور عبیدہ نے حمزہ اور علی(ع) کی مدد سے شیبہ کا کام تمام کیا۔ امام علی(ع) سے منقولہ روایت کے مطابق، آپ(ع) تینوں افراد کے قتل میں شریک ہوئے تھے۔
جنگ کا انجام
عتبہ، شیبہ اور ولید کے ہلاک ہوجانے کے بعد جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے لیکن اللہ کی غیبی امداد اور مسلمانوں کی شجاعت اور پامردی کے نتیجے میں مشرکین بہت جلد مغلوب ہوئے۔ تواریخ کے مطابق گھمسان کی لڑائی کے دوران، رسول خدا(ص) نے مٹھی بھر ریت اٹھا کر قریشیوں کی جانب پھینک دی اور ان پر نفرین کی۔ یہی امر مشرکین کے فرار ہونے اور ان کی شکست و ناکامی کا سبب ہوا۔ قریش کا لشکر اپنا مال و اسباب چھوڑ کر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گیا اور بعض افراد شکست کی خبر مکیوں کے لئے لے گئے۔
شہدائے بدر کے اسماء کا کتبہ جو بمقام بدر ان کے مدفن میں نصب کیا گیا ہے۔
جنگ بدر میں 14 مسلمان شہید ہوئے (جن میں سے 6 کا تعلق مہاجرین اور 8 کا تعلق انصار سے تھا) اور مشرکین میں سے 70 افراد ہلاک ہوئے اور اتنے ہی افراد کو قیدی بنایا گیا۔ابن قتیبہ دینوری نے مشرکین کے مقتولین کی تعداد 50 اور قیدیوں کی تعداد 44 بتائی ہے جن میں سے 35 افراد علی (ع) کے ہاتھوں مارے گئے۔ دریں اثناء سینکڑوں قریشی اطراف کے صحراؤں میں منتشر ہوگئے تھے اور رات کے اندھیرے اور مسلمانوں کے ہاتھ سے نجات پانے کے لئے لمحہ شماری کررہے تھے۔
رسول خدا(ص) کو ابو جہل کی ہلاکت کی خبر سننے کا انتظار تھا اور آپ(ص) نے اس کو پیشوایان کفر کا سرکردہ اور فرعون امت جیسے خطابات سے نوازا تھا،چنانچہ آپ(ص) نے اس کی ہلاکت کی خبر سنتے ہی فرمایا: "اے میرے رب! تو نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرکے دکھایا ابو جہل دو نو عمر نوجوانوں "معاذ بن عمرو" اور "معاذ بن عفراء" کے ہاتھوں مارا گیا اور ابھی اس کی جان میں جان تھی جب عبداللہ بن مسعود نے اس کا سر تن جدا کیا۔
دوسرا شخص، جس پر رسول خدا(ص) نے نفرین کی تھی اور اس کی ہلاکت کے خواہاں تھے، نوفل بن خویلد تھا جو علی (ع) کے ہاتھوں مارا گیا۔ نوفل کی ہلاکت پر رسول اللہ(ص) نے تکبیر کہی اور فرمایا: "خدا کا شکر جس نے میری دعا مستجاب فرمائی۔"
جنگ بدر جو نصف روز سے زیادہ جاری نہ رہی صدر اول کا ایک اہم ترین واقعہ ثابت ہوئی؛ یہاں تک کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: "کبھی بھی شیطان اتنا عاجز اور چھوٹا نہ تھا جتنا کہ روز عرفہ کو عاجز اور چھوٹا ہوجاتا ہے، سوائے یوم بدر کے"۔