۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ/ قائد ملت جعفریہ پاکستان: مجاہدین بدر نے قلت کے باوجود جس عزم اور استقلال سے دفاع، اسلام دشمن قوتوں کا اور بحرانوں پر قابو پایا، انہوں نے کہا کہ غزوہ بدر سے سبق ملتا ہے کہ قلت کے باوجود ایمان، اعتقاد، یقین سے کام لیں تو بڑی سے بڑی ظالم طاقت کو شکست فاش دی جا سکتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے فتح جنگ بدر17 رمضان المبارک کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ غزوہ بدر توکل بر خدا اور رسالت کے احکام اور پالیسیوں پر صدق دل سے عمل کرنے کا واضح مظاہرہ ہے جس سے سبق ملتا ہے کہ جس طرح اصحاب بدر نے بہت کم تعداد میں ہونے اور وسائل کی واضح کمی کے باوجود حکم رسول کی اطاعت کی اور اپنے آپ کو قربانی کےلئے پیش کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور یقین قلب کے ساتھ شہادت قبول کرتے رہے اسی طرح اگر اس دور کے مسلمان اصحاب ؓ بدر والا جذبہ پیدا کریں تو کوئی طاقت ا ُن کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔

علامہ ساجدنقوی نے مزید کہا کہ مجاہدین بدر نے قلت کے باوجود جس عزم اور استقلال سے دفاع، اسلام دشمن قوتوں کا اور بحرانوں پر قابو پایا۔ اس کی مثال غزوہ بدر سے پہلے اور بعد میں کہیں نہیں ملتی۔ قلت پر کثرت کا غلبہ پہلی مرتبہ غزوہ بدر میں دیکھنے کو ملا جس سے رہتی دنیا تک مسلمانوں اور مجاہدین کو سبق ملا کہ وہ افراد کی قلت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پریشان نہ ہوں بلکہ ایمان، اعتقاد، یقین اور سچے جذبے سے کام لیں تو بڑی سے بڑی ظالم طاقت کو بھی شکست فاش دی جا سکتی ہے اور بڑے بڑے بحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حضور اکرم عظیم سپہ سالا تھے ۔اُن کی الٰہی قیادت کی زیر نگرانی اسلام کے پہلے معرکے میں جس طرح جرات و بہادری اور قربانی کی مثالیں رقم کی گئیں وہ اسلام کا اثاثہ اور سرمایہ ہیں۔ محافظ رسالت حضرت علی ؑ نے جس دلیری کے ساتھ سینہ سپر ہوکر کفار اور دشمنوں کو واصل جہنم کیا یہ جذبہ ہر مجاہد اور حریت پسند کے لیے نمونہ عمل ہے اس کے علاوہ شعب ابی طالب میں سختیاں اور پابندیاں برداشت کرنے کے باوجودبنو ہاشم کا دفاع کرنا بھی تاریخ اسلام کی روشن مثال ہے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے غزوہ بدر میں اتحاد کے ذریعے قوت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مشکلات میں ساتھ دینا چاہیے اگر کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہ ہو تو اسے اپنے مسلمان ہونے پر غور کرنا چاہئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .