۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا مبین حیدر رضوی

حوزہ/ حضرت حمزہ بن عبد المطلب آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا تھے ۔بعثت کے چھھ برس بعد اسلام قبول کیا ۔ بے حد جری اور دلیر تھے۔ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ جنگ بدر میں حصہ لیا اور خوب داد شجاعت لی۔      

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قرآن و عترت فاونڈیشن کی جانب سے دبیر خانہ شہید سردار سلیمانی ؒمدرسہ حجتیہ علمی مرکزقم،ایران میں یاد شہید حضرت حمزہ کےعنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد ہوا۔ جسمیں حجۃ السلام والمسلمین مولانا سید مبین حیدر رضوی نے تقریر کرتے ہوئے بیان کیا کہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا تھے ۔بعثت کے چھھ برس بعد اسلام قبول کیا ۔ بے حد جری اور دلیر تھے۔ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ جنگ بدر میں حصہ لیا اور خوب داد شجاعت لی۔

انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی قبولیت دعوتِ توحید کی صداگو کہ ایک عرصہ سے مکہ کی گھاٹیوں میں گونج رہی تھی ،تاہم حضرت حمزہ سپاہی منش تھے انہیں صحرانوردی اور سیر و شکار کا جنون تھا لیکن خدانے عجیب طرح سے ان کی رہنمائی کی،ایک روز حسب معمول شکار سے واپس آ رہے تھے کوہِ صفا کے پاس پہنچے تو ایک کنیز نے کہا"ابو عمارہ! کاش تھوڑی دیر پہلے تم اپنے بھتیجے محمد کا حال دیکھتے ،وہ خانہ کعبہ میں اپنے مذہب کاپیغام دے رہے تھے کہ ابو جہل نے نہایت سخت توھین کی لیکن محمد نے کچھ جواب نہ دیا اور بے بسی کے ساتھ لوٹ گئے،یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت میں جوش آگیا،تیزی کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف بڑھے، ان کا قاعدہ تھا کہ شکار سے واپس آتے ہوئے کوئی راہ میں مل جاتا تو کھڑے ہوکر ضرور اس سے دو دوباتیں کرلیتے تھے،لیکن اس وقت جوشِ انتقام نے مغضوب الغضب کر دیا تھا، کسی طرف متوجہ نہ ہوئے اور سیدھے خانہ کعبہ پہنچ کر ابو جہل کے سر پر زور سے اپنی کمان دے ماری جس سے وہ زخمی ہو گیا، یہ دیکھ کر بنی مخزوم کے چند آدمی ابو جہل کی مدد کے لیے دوڑے اور بولے حمزہ شاید تم بھی بددین ہو گئے فرمایا"جب اس کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہو گئی تو کون سی چیز اس سے باز رکھ سکتی ہے؟ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد خدا کے رسول ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں سب حق ہے،خدا کی قسم اب میں اس سے پھر نہیں سکتا، اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دیکھھ لو ابو جہل نے کہا ابو عمارہ کو چھوڑدو،خدا کی قسم میں نے ابھی اس کے بھتیجے کی بہت توھین کی ھے۔

مولانا مبین حیدر رضوی نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ عھد نامہ قریش کے دیمک کے ذریعے کھائے جانے کی خبر جب امیر حمزہ نے دی تو ھندہ جگر خورا نے پلٹ کر کہا یا حمزہ ماذا صار بک کنت صیاد الاسد والان تلعب بالحشرات ۔۔حمزہ تم کو کیا ھوگیا تم تو( نہتے) شیروں کا شکار کرتے تھے اور اب کیڑے مکوڑوں کی بات کر رھے ھو؟ جواب دیا ۔میں حق کی وکالت کر رہا ہوں۔

مولانا موصوف نے کہا کہ بعثت کے تیرہویں سال دیگر تمام افرادکے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، جہاں ان کو زور بازو اورخداداد شجاعت کے جوہر دکھانے کا نہایت اچھا موقع ہاتھ آیا،چنانچہ پہلا اسلامی علم اان ہی کو عنایت ہوا اور تین آدمیوں کے ساتھ ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کیے گئے کہ قریشی قافلوں کے سدِّ راہ ہوں،غرض وہاں پہنچ کر ابو جہل کے قافلہ سے جس میں تین سو سوار تھے مڈ بھیڑ ہوئی اورطرفین نے جنگ کے لیے صف بندی کی،لیکن مجدی بن عمرو الجہنی نے بیچ بچاؤ کرکے لڑائی روک دی اورحضرت امیر حمزہ بغیر کشت وخون واپس آئے۔

بدر کی شکست فاش نے مشرکین قریش کے تو سنِ غیرت کے لیے تازیانہ کاکام کیااورجوشِ انتقام سے برانگیختہ ہوکر 3ھ میں قریش کا سیلاب عظیم پھر مدینہ کی طرف امڈاحضرت سرورِ کائنات نے اپنے جان نثاروں کے ساتھ نکل کر کوہِ اُحد کے دامن میں اس کو روکا، 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی کفار کی طرف سے سباع نے بڑھ کر مبارز طلبی کی تو حضرت امیر حمزہ اپنی شمشیرخار اشگاف تو لتے ہوئے میدان میں آئے اورللکارکر کہا اے سباع!اے ام انمار مضغہ ! کیا تو خدااوراس کے رسول سے لڑنے آیا ہے یہ کہہ کر اس زور سے حملہ کیا کہ ایک ہی وار میں اس کا کام تمام ہو گیا،اس کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوئی اس شیر رسول خدانے دوبارہ کفر کے ٹڈی دل لشکر میں گھس کر کشتوں کے پشتے لگادیئے اورجس طرف بھی جھپٹے صفیں کی صفیں الٹ دیں،غرض اس جوش سے لڑے کہ تنہا تیس کافروں کو واصلِ جہنم کر دیا۔

ہندوستان کے برجستہ عالم دین نے آپکی شہادت کے سلسلے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امیر حمزہ نے چونکہ جنگ بدر میں چن چن کر اکثر صنادید قریش کو تہ تیغ کیا تھا اس لیے تمام مشرکین قریش سب سے زیادہ ان کے خون کے پیاسے تھے،چنانچہ جبیر بن مطعم نے ایک غلام کو جس کا نام وحشی تھا، اپنے چچا طعیمہ بن عدی کے انتقام پر خاص طورسے تیار کیا تھا اوراس صلہ میں آزادی کا لالچ دلایا تھا،غرض وہ جنگ اُحد کے موقع پر ایک چٹان کے پیچھے گھات میں بیٹھا ہوا حضرت حمزہ کا انتظار کررہا تھا،اتفاقاً وہ ایک دفعہ قریب سے گذرے تو اس نے اچانک اس زور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا کہ آر پار ہو گیا پھر بھی آپ وحشی کی طرف شیر کی طرح جھپٹے مگر زخموں سے نڈھال ہوکر گرپڑے،اس شیر رسول خدا کی شہادت پر کفار کی عورتوں نے خوشی و مسرت کے ترانے گائے، ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ نے ناک کان کاٹ کر زیور بنائے،نیز شکم چاک کرکے جگر نکالا اورچباچبا کر تھوک دیا،حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو پوچھا،کیا اس نے کچھ کھایا بھی ہے،لوگوں نے عرض کیا نہیں فرمایا، خداحمزہ کے کسی جزوکو جہنم میں داخل ہونے نہ دینا۔

حضرت صفیہ ؓ حضرت امیر حمزہ ؓ کی حقیقی بہن تھیں، بھائی کی شہادت کا حال سنا تو روتے ہوئے جنازہ کے پاس آئیں، لیکن آنحضرت نے دیکھنے نہ دیا اورتسلی وتشفی دے کر واپس فرمایا آنحضرت نے فرمایا کہ چادر سے چہرہ چھپاؤ اورپاؤں پر گھاس اورپتے ڈال دو،غرض جناب حمزہ کا جنازہ تیار ہوا، سرورِ کائنات نے خود نماز پڑھائی، اس کے بعد ایک ایک کرکے شہدائے اُحد کے جنازے ان کے پہلو میں رکھے گئے، اورآپ نے علاحدہ علاحدہ ہر ایک پر نماز پڑھائی اس طرح غازیانِ دین نے بصد اندوہ والم اس شیر رسول خدا کو اسی میدان احد میں سپرد خاک کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلام اللہ یوم ولد و یوم مات و یوم یبعث حیا۔۔

واضح رہے کہ اس پروگرام سے پہلے ایک نشست ہوئی جسمیں موسس قرآن وعترت فاونڈیشن حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسیدشمع محمدرضوی نے فرمایا!کوشش ہویادحضرت حمزہ ؒ کے عنوان سے تمام اردوزبان کے علاقے میں بھرپورپروگرام منعقدہو،اورساتھ ساتھ کوشش یہ ہوکہ معاشرے میں یہ لوگوں کوباخبرکیاجائے تاکہ آپکے عنوان سے کتابوں کی تالیف اورنشرکابھی سلسلہ جاری ہو،اورمخلصین ومحبین سے گذارش ہے کہ ہرگھرمیں حد اقل بچوں میں سے ایک کانام حضرت حمزہ کے نام پر ضرور ہو۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .