تحریر: محمد علی شریعتی
حوزہ نیوز ایجنسی । حضرت حمزہ بن عبد المطلب پیغمبر اسلام صلی الله عليه و آلہ وسلم کے چچا اور رضاعی بھائی تھے۔ آپ اپنے بھائی ابو طالب علیہ السلام اور بھتیجے امیر المومنین علیہم السلام کی طرح رسول الله صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے محافظ تھے۔
آپ اس وقت بھی مشرکین کے آزار و اذیت سے آپ ص کو بچاتے تھے جب آپ نے ایمان نہیں لایا تھا، کیونکہ آپ کا شمار قریش کے بزرگوں میں ہوتا تھا اس لئے آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد مشرکین کی طرف سے آپ ص کو پہنچائے جانے والی اذیتوں میں واضح کمی آئی۔
اسلام سے پہلے بھی آپ ایک نمایاں شخصیت تھے آپ اس زمانے کے مشہور معاہدے حلف الفضول اور جنگ نجار میں بھی شریک ہوئے۔
آپ کے اسلام قبول کرنے کے حوالے سے منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ کو خبر ہوئی کہ ابوجہل نے پیغمبر اسلام صلی الله عليه و آلہ وسلم کی توہین کی ہے تو فوراً تیر و کمان سنبھالا اور ابوجہل کے سر کو زخمی کیا اور ساتھ ہی اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اسی لیے امام زین العابدین علیہ السلام نے آپ کے اسلام قبول کرنے کی علت آپ کی غیرت کو قرار دیا ہے۔
آپ ہمیشہ پیغمبر اکرم صلی الله عليه و آلہ وسلم کے پاس رہے یہاں تک کی حبشہ کی طرف ہجرت نہیں کی بلکہ آپ ص کے دفاع میں مصروف رہے اور شعب ابی طالب ع کی سختیاں بھی آپ نے جھیل لی غرض آپ کی اسلام کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
آپ نے مختلف غزوات اور جنگوں میں نہ فقط شرکت کی بلکہ علمداری کے فرائض بھی انجام دئیے جیسے غزوات اَبواء یا وَدّان، ذوالعُشَیْره اور بنی قَیْنُقاع میں اسلام کا پرچم آپ کے ہاتھوں میں تھا۔
غزوہ بدر میں بھی آپ دشمن کے نہایت قریب لڑنے والوں میں سے تھے۔
غزوہ احد میں آپ نے قسم کھائی تھی جب تک شہر کے باہر دشمن سے جنگ نہ کروں کچھ نہیں کھاؤں گا اور آپ قلب لشکر کے سپہ سالار تھے اور دو تلواروں سے جنگ لڑ رہے تھے یہاں تک کہ بعض نادانوں کی پیغمبر اکرم صلی الله عليه و آلہ وسلم کی بات کو نہ ماننے کی وجہ سے دشمن کو غلبہ حاصل ہوا اور آپ نہایت مظلومانہ طریقے سے شہید ہوئے۔
ذیل میں آپ کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی الله عليه و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے مروی کچھ احادیث کو ذکر کر کے بحث کو سمیٹتے ہیں۔
1: حدیث کے مطابق سب سے پیارا نام حمزہ ہے۔
عن الامام الصادق علیه السلام
جاءَ رَجلٌ اِلَی النبی صلی الله علیه و آله فقال یا رَسُول اللّه وُلِدَ لی غلامٌ فماذا اُسَمّیه؟ قال: سَمِّهِ بأحَبِّ الأسماء اِلیّ؛ حَمْزة۔(1)
ایک شخص رسول خدا ص کی خدمت میں میں آیا اور عرض کیا: اللہ نے مجھے ایک بیٹا عطا کیا ہے اسے کیا نام دوں؟
آپ ص نے فرمایا: میرے نزدیک سب سے محبوب نام حمزہ نام رکھنا ہے۔
2: آپ پیغمبر ص کے سب سے محبوب چچا۔
عن الصادق ع عن رسول اللہ ص
اَحَبّ اِخوانی اِلَیَّ علّی بن أبی طالب و أحَبّ أعْمامی اِلیَّ حَمْزَه.(2)
میرے سب سے پسندیدہ بھائی علی ابن ابی طالب ہیں جبکہ میرے سب سے محبوب چچا حمزہ ہیں۔
3:حضرت حمزہ کے بعض القاب:
عن الباقر ع عن رسول اللہ ص
«وَعَلی قائمة العرش مکتوبٌ: حمزة اسدالله و اسد رسوله و سیدالشهدا».(3)
عرش کے ستون پر لکھا ہوا ہے
حمزہ خدا اور اسکے رسول کا شیر اور سید الشھداء ہیں۔
4: حمزہ باعث افتخار پیغمبر خدا ص:
ایک دن رسول خدا صلی الله علیه و آله نے حضرت فاطمه علیهاالسلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «شهیدنا أفضل الشهداء و هو عمّک وَ مِنّا مَنْ جَعَل اللّه لَهُ جِناحَین یطیرُ بِهِما مَعَ الملائکة وَ هُوَ ابنُ عَمِّکَ۔۔۔۔۔(4)
ہمارا شہید جو سارے شہداء سے افضل ہے وہ آپ کے چچا حمزہ ہیں اور وہ شخصیت بھی ہم میں سے ہے جن کو خداوند دو پر عطا کرے گا اور ان کے ذریعے وہ فرشتوں کے ساتھ پرواز کرے گا وہ آپ کا چچا زاد بھائی(جعفر طیار) ہیں۔
5: امیر المومنین ع حضرت حمزہ ع کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔
عن امیرالمؤمنین علیه السلام
«منّا سبعةٌ خَلَقَهم اللّه عزوجل لم یخلق فی الأرض مثلهم؛ مِنّا رسول اللّه صلی الله علیه و آله سید الأوّلین والآخرین، خاتم النبیین و وصیّه خیرالوصیین و سبطاه خیرالأسباط؛ حَسَنا و حُسَینا و سیدالشهداء حمزة عمّه و من قد کان مع الملائکة جعفر والقائم عجل الله تعالی فرجه۔(5)
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:
ہمارے درمیان سات شخصیات ایسی ہیں جن کی طرح کسی اور کو زمین پر اللہ نے خلق نہیں کیا ہے۔
1: اللہ کے سب سے آخری پیغمبر اور اولین و آخرین کے سردار حضرت محمد ص ہم میں سے ہیں۔
2: آپ ص کا وصی ع تمام وصیوں میں سب سے بہترین وصی۔
3، 4 : آپ ص کے نواسے سب سے بہترین ہیں۔
5: ان کا چچا حمزہ ع سید الشہداء۔
6: آپ ص کے چچا زاد بھائی جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرنے والے جعفر طیار ع
7: امام مہدی ع (ہم میں سے ہیں)
6: حضرت حمزہ کی شھادت سے پیغمبر ص نے احساس تنہائی کیا۔
جنگ خندق میں جب امیر المومنین علیہ السلام عمر بن عبدود سے مقابلے کرنے کیلئے جارہے تھے تو پیغمبر ص نے یوں دعا کی: «أللّهمّ اِنّکَ اَخَذْتَ مِنّی عُبیدة یومَ بَدر وَ حمزة یَوْمَ اُحُد فَاحْفَظ عَلَیَّ الیومَ علیّا... رَبِّ لاَتَذَرْنِی فَرْدا وَ أَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِینَ۔(6)
خدایا! تو نےجنگ بدر میں میرے چچا زاد بھائی عبیدہ کو اور جنگ احد میں میرے چچا حمزہ کو مجھ سے لے لیا، پس آج علی کو میرے لیے محفوظ رکھنا اور مجھے تنہا نہ کرنا اور تو ہی سب سے بہترین وارث ہے۔
7: شہادتِ حمزہ پیغمبر ص پر انتہائی گران گزری:
شیخ صدوق نقل کرتے ہیں:
«نَظر علیّ بن الحسین سیّدالعابدین علیهماالسلام الی عبیداللّه بن عبّاس بن علیّبن ابی طالب علیه السلام فاستعبر ثمّ قال: ما مِنْ یوم اَشَدّ علی رسول اللّه مِنْ یوم اُحُد قُتِلَ فیه عمّه حمزة بن عبدالمطلب اسداللّه و اسد رسوله و بعده یوم موته قتل فیه ابن عمّه جعفربن ابی طالب، ثمّ قال ولایوم لیوم الحسین علیه السلام اذ دلف الیه ثلثون ألف رجل یزعمون اَنّهم من هذه الأمّة کلٌ یتقرّب اِلیاللّه عزوجل بدمه...۔۔(7)
ایک دن حضرت امام سجاد علیہ السلام نے حضرت عباس علیہ السلام کے فرزند عبیداللہ کی طرف نگاہ کیا اور آپ ع کی آنکھیں آنسووں سے بھر آئیں پھر فرمایا: پیغمبر گرامی اسلام پر احد کے دن سے سخت کوئی اور دن نہیں آیا جس دن آنحضرت ص کے چچا، خدا اور اسکے رسول کا شیر حمزہ ع کو شہید کیا گیا اسکے بعد جنگ موتہ کا دن آنحضرت ص کیلئے سخت تھا جس دن ان کے چچا زاد بھائی جعفر طیار ع کو شہید کیا گیا، پھر امام ع نے فرمایا: لیکن امام حسین علیہ السلام کا دن ان دو دنوں سے بھی سخت تھا، کیونکہ اس دن تیس ہزار کے لشکر نے آپ ع کو گھیرا ہوا تھا اور ان میں سے ہر ایک آپ ع کے خون کو بہا کر خدا کے قریب ہونا چاہ رہا تھا۔
حوالہ جات:
1: کافی کتاب العقیقة باب الأسما والکنی
2: امالی صدوق، مجلس هشتاد و دوم، عمده ابن عقدة 2811
3: بصائرالدرجات، ص 34؛
4: قرب الإسناد، چاپ کوشانفر، ص 39.
5: بحارالأنوار، ج 22، ص 273
6: شرح نهج البلاغه(ابی الحدید)، ج 19، ص 61.
.کافی، ج 1، ص 450)
7: امالی صدوق، ص 277
بحارالأنوار، ج 22، ص
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔