حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ اعرافی نے مجتمع آموزش عالی تاریخ، سیره و تمدن اسلامی (اسلامی تاریخ، روایت اور تہذیب کے اعلیٰ تعلیمی کمپلیکس) کے زیر اہتمام امام خمینی (رح) کمپلیکس کے قدس ہال میں حضرت حمزہ علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا: اگر ہمارے پاس فلسطین اور اسلام کے دیگر مقامات پر حضرت حمزہ سلام اللہ علیہاجیسا لیڈر ہوتا تو ہم امت مسلمہ کی موجودہ ذلت کا کبھی مشاہدہ نہ کرتے۔ یہ امت مسلمہ اور پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے لیے رسوائی کی بات ہے کہ جن کے پاس دنیا کے 50 فیصد سے زائد معدنی اور توانائی کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ان ممالک میں غاصب صیہونی حکومت فتنہ انگیزی کو ہوا دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا: ہمیں ہمیشہ ان لوگوں کی قدردانی کرنی چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور اہل بیت علیہم السلام کی عزت و احترام کرتے ہیں ۔
حوزہ علمیہ کے سرپرست نے تاریخ اسلام کے دو بڑے دھاروں کے درمیان تقابل اور نبوی اور علوی راہ کے خلاف وضع کردہ کوششوں اور اس کی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: امت اسلامی اور اتحاد اسلامی کے عقیدہ پر پابند ہونے کے ساتھ ساتھ انقلابِ اسلامی ہمیں جدوجہد اور مزاحمت کے مناظر میں امتِ اسلامی کی صفوں کے درمیان اتحاد و و حدت کی دعوت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا: احادیث نے قرآن کو عینیت و معروضیت بخشی ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآنِ کریم کے لئے بطور تکملہ اور مفسر قرآن کے طور پر ہے جس سے واضح راستے مزید نمایاں ہوتے ہیں۔
آیت اللہ اعرافی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو سو سال تک منع کرنے جیسے مسائل نے حقیقتِ دین کو درک کرنے میں کاری ضرب لگائی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اس وقت حدیث کی ممانعت کی حقیقت پسندانہ تشریح اور جواب یہ تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر سنتِ الہی کو ترک کر دیا تاکہ علوی فکر اور عدالت کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل کیا جائے اور اسے پسِ پشت ڈالا جا سکے۔
آیت اللہ اعرافی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ممتاز افراد اور صحابہ کبار کی یاد کو زندہ رکھنے کے عمل کو قابل ستائش قرار دیا اور کہا: شخصیتوں کو پہچاننا، انہیں دوبارہ مطالعہ کرنا، چھان بین کرنا، ان کی تبیین اور صحابہ کرام اور خاندانِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی عظیم شخصیات کہ جو خالص مرکز علوی میں موجود ہیں اور ہر قسم کی لغزشوں سے دور ہیں، کو یاد رکھنا ایک بہت اہم کام ہے جس پر ہمیشہ غور و فکر ہونی چاہیے ۔
انہوں نے دشمن کے مقابلے میں حضرت حمزہ علیہ السلام کی ہمت، شجاعت اور جرأٔت کو ان کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات قرار دیا کہا: اگر ہم کسی وقت اندر سے ٹوٹ جائیں اور اپنے آپ کو کھو دیں تو عملی طور پر بھی شکست کھا جائیں گے۔ کسی ایک فرد کا اندرونی خاتمہ ایک پورے گروہ یا معاشرہ کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح شجاعت، حکمت اور اندرونی طاقت اور روح کی سچائی کی علامت ہے۔ بیرونی واقعات و حادثات کے سامنے اپنے باطن کو مضبوط رکھنا اور اسے نہ ٹوٹنے دیناہی حقیقی شجاعت ہے۔
آیت اللہ اعرافی نے کہا: حضرت حمزہ علیہ السلام کی جرأٔت و شجاعت منطقی اور صحیح معنی رکھتی تھی اور وہ بہترین معرفت اور اخلاص کے حامل فرد تھے۔