حوزہ نیوزایجنسیl
ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی
پانچویں اور چھٹے پارے کا مختصر جائزه
1. آیت 24سوره نساء۔ازدواج موقت۔اس آیت میں واضح طور پر ازدواج موقت کا جواز موجود ہے جیسا کہ روایات اہل بیت علیھم السلام میں بھی ازدواج موقت کے لیے اس آیت سے استناد کیا گیا ہے، امام باقر علیہ السلام سےجب ابو بصیر کے ذریعے سوال کیا گیا تو امام نے فرمایا۔ قرآن مجید نے اس سلسلے میں بیان دیا ہے؛ وہاں پر کہ جہاں ارشاد ہے فَمَا اسْتَمْتَعْتُم ،اسی طرح امام باقر علیہ السلام یہ بھی منقول ہے۔اسے قرآن نے زبان پیغمبر سے حلال گردانہ ہے اور یہ تا روز قیامت حلال ہے تاریخ سے بھی یہ بات روشن ہے کہ ازدواج موقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے میں جائز تھا اور مسلمان اس پر عمل کرتے تھے اور پھر عمر بن خطاب نے اپنے شخصی رائے اور نظریے کی بنیاد پر اس سے منع کردیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے معروف صحابی جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل ہے متعہ ہمارے درمیان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے میں اور خلافت ابوبکر میں اور خلافت عمر کے کچھ حصے میں عام سی بات تھی پھر اس کے بعد عمر نے اسے منع کردیا خود عمر سے منقول ہے کہ زمانۂ پیغمبر میں دو متع تھا کہ جسے میں حرام کر رہا ہوں اور جو بھی اس پر عمل کرے گا اسے سزا دوں گا۔ ایک متعۃ النسا اور حج تمتع [6]۔
2. آیت ۲۹سوره نساء۔خود کو قتل نہ کرو۔مفسرین نے اس آیت کے جملے وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ جملہ خودکشی کی نہی میں ہے۔
3. آیت ۵۸سوره نساء۔امانت کی اہمیت۔امانت کے معنی بہت وسیع ہیں اور ہر طرح کے مادی اور معنوی سرمائے کو اپنے اندر شامل کرتا ہے اور ہر مسلمان اس آیت کے واضح بیان کے بعد وظیفہ رکھتا ہے کہ کہ وہ کسی بھی امانت میں کسی کے ساتھ بھی خیانت نہ کرے چاہے صاحب امانت مسلمان ہو یا غیر مسلمان ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اپنے ایک صحابی سے فرمایا۔ اگر کوئی ایسا شخص کہ جس نے علی علیہ السلام کو شمشیر سے قتل کیا ہو اگر وہ بھی میرے پاس امانت رکھے یا مجھ سے نصیحت مانگے یا مجھ سے مشورہ کرے اور میں اسے قبول کرلوں تو قطعی طور پر حقِ امانت کو ادا کروں گا ،اسی طرح ایک دوسری روایت میں امام صادق علیہ السلام سے ہی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا۔ لوگوں کے طولانی رکوع و سجود کی طرف ہی فقط نگاہ نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ یہ ان کی عادت بن چکی ہو جسے انہیں چھوڑنا ناگوار گزرتا ہو، بلکہ گفتگو میں صداقت اور ادائے امانت میں وہ کیسے ہیں اس کی جانب نگاہ کرو [7]۔
4. آیت ۵۹سوره نساء۔ایک روایت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے خاص صحابی جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے پیغمبر خدا ہم نے خدا اور اس کے پیغمبر کو پہچان لیا، یہ اولی الامرلوگ کون ہیں جنکی اطاعت کو پروردگار نے اپنی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ارشاد فرمایا وہ میرے بعد میرے جانشین ہیں جو مسلمانوں کے پیشوا ہیں جن میں سے سب سے پہلے علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں اس کے بعد حسن علیہ السلام اس کے بعد حسین علیہ السلام ہیں [8]۔
چھٹے پارے کےچیدہ نکات
1. آیت ۱۶۴ سورهٔ نساء۔وہ انبیاء کہ جنکا نام قرآن میں آیا ہے۔اس آیت کے ذیل میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا۔ انبیاء میں سے بعض اپنی نبوت کو لوگوں سے پوشیدہ کر کے رکھتے تھے اسی وجہ سے ان کا نام قرآن میں مخفی رکھا گیا ہے اور ذکر نہیں کیا گیا؛ لیکن بعض انبیاء نے اپنی نبوت کو علنی رکھا اور یہ وہی ہیں کہ جن کے اسمائے گرامی قرآن میں آئے ہیں اور یہ آیت اسی معنیٰ کی جانب اشارہ کرتی ہے [9]۔
2. آیت ۱۷۱سورهٔ نساء۔ غلو میں ہمیشہ سے ایک بہت بڑا عیب یہ رہا ہے کہ وہ مذہب کے بنیادی عقائد یعنی خدا پرستی اور توحید کے چہرے کو خراب کر ڈالتا ہے اسی وجہ سےاسلام نے غلات کے سلسلے میں بہت ہی سخت اقدامات اٹھائے ہیں اور انہیں بدترین کفار کے طور پر یاد کیا ہے (نمونہ ج۴ ص ۲۲۱)امام علی علیہ السلام سے منقول ہے۔ هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ ومُبْغِضٌ قَالٍ؛ میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں ۔وہ دوست جو دوستی میں غلو سے کام لیتے ہیں اوروہ دشمن جو دشمنی میں مبالغہ کرتے ہیں[10]۔
3. ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ایک ایسے شخص سے کہ جو آپ کی تعریف میں افراط سے کام لے رہا تھا اور امام جانتے تھے کہ اس کا دل اس کی زبان کے ساتھ نہیں ہے تو آپ نے اس سے فرمایا۔ وقَالَ عليهالسلام لِرَجُلٍ أَفْرَطَ فِي الثَّنَاءِ عَلَيْه وكَانَ لَه مُتَّهِماً - أَنَا دُونَ مَا تَقُولُ وفَوْقَ مَا فِي نَفْسِكَ؛آپ نے اس شخص سے فرمایا جوآپ کا عقیدت مند تو نہ تھا لیکن آپ کی بے حد تعریف کر رہاتھا ''میں تمہارے بیان سے کمتر ہوں لیکن تمہارے خیال سے بالاتر ہوں '' (یعنی جو تم نے میرے بارے میں کہا ہے وہ مبالغہ ہے لیکن جو میرے بارے میں عقیدہ رکھتے ہو وہ میری حیثیت سے بہت کم ہے[11]۔
4. آیت ۱۷۴سورهٔ نساء۔بعض دانشوروں کے مطابق برہان کے معنی سفید ہونے کے ہیں اور اس بنیاد پر کے بہترین استدلال حق کے چہرے کو سننے والے کے لئے نورانی اور آشکار و سفید کر دیتا ہے اسے برہان کہا جاتا ہے، اس آیت میں برہان سے مراد ذات پیغمبر گرامی صلیٰ اللہ علیہ و آلہ ہےاور نور سے مراد قرآن مجید ہے( نمونہ ج۴ ص۲۲۴)کچھ دوسری احادیث میں برہان سے مراد پیغمبر صلیٰ اللہ علیہ و آلہ اور نور سے مراد علی علیہ السلام کی تفسیر پیش کی گئی ہے[12]۔
5. سورهٔ مائدہ آیت ۳۔ولایت علی علیہ السلام دین کے کمال اور نعمتوں کی بلندی۔[تفصیلی مطالب کے لیے رجوع فرمائیں تفسیر نمونہ ج ۴ صص ۲۷۱۲۶۳]۔
6. سورهٔ مائدہ آیت ۳۵۔توسل؛ متنِ قرآن سے ایک روشن حقیقت۔[رجوع فرمائیں تفسیر المیزان ج۵ ص۳۳۵]۔
7. سورهٔ مائدہ آیت ۵۵۔ حالت رکوع میں زکات۔اس آیت سے مراد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں[رجوع فرمائیں تفسیر نمونہ ج۴ ص۴۳۳]۔
8. سورهٔ مائدہ آیت ۶۷۔غدیر خم میں اعلان ولایت علی علیہ السلام۔[رجوع فرمائیں تفسیر المیزان ج۶ ص۴۴]۔