۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
رمضان المبارک کے چوبیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! تیرے در پر ہر اس چیز کا سوالی ہوں جو تجھے خوشنود کرتی ہے اور ہر اس چیز سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں جو تجھے ناراض کرتی ہے، اور تجھ سے توفیق کا طلبگار ہوں کہ میں تیرا اطاعت گزار رہوں اور تیری نافرمانی نہ کروں، اے سوالیوں کو بہت زیادہ عطا کرنے والے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی ماہ رمضان کے چوبیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں أللّهُمَّ إنِّي أسألُكَ فيہ مايُرضيكَ وَأعُوذُ بِكَ مِمّا يُؤذيكَ وَأسألُكَ التَّوفيقَ فيہ لِأَنْ اُطيعَكَ وَلا أعْصِيَكَ يا جواد السّائلينَ
خدایا! تیرے در پر ہر اس چیز کا سوالی ہوں جو تجھے خوشنود کرتی ہے اور ہر اس چیز سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں جو تجھے ناراض کرتی ہے، اور تجھ سے توفیق کا طلبگار ہوں کہ میں تیرا اطاعت گزار رہوں اور تیری نافرمانی نہ کروں، اے سوالیوں کو بہت زیادہ عطا کرنے والے۔
خدا وند عالم کی رضا و خوشنودی ہی بندگی کا ہنر ہے۔ جسے اس کی رضا نصیب ہو جائے وہی بندہ دو جہاں میں کامیاب ہے۔
جب انسان کے پیش نظر معبود کی رضا ہوتی ہے تو وہ نہ کچھ ملنے پر خوش ہوتا ہے اور نہ ہی کچھ چلے جانے پر ناراض ہوتا ہے ۔ وہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے چاہے اس کے پاس پوری دنیا ہو یا اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ خدا میں عرض کیا کہ مجھے اپنے نیک اور صالح بندے سے ملاقات کرا دے۔ حکم ہوا کہ صحرا میں جاو۔ وہاں ایک بندے کو کھیتی کرتے ہوئے دیکھو گے وہ میرا محبوب بندہ ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام صحرا میں پہنچے تو کیا دیکھا کہ ایک شخص کھیتی میں مصروف ہے جسے دیکھ کر آپ کو بہت تعجب ہوا کہ یہ کیسے اس منزل پر پہنچ گیا کہ اللہ کے نیک بندوں میں شامل ہو گیا۔
آپ نے جناب جبرئیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابھی خدا اس کا امتحان لے گا تو اس آزمائش میں آپ اسے سمجھ سکتے ہیں۔
اچانک ایک بلا نازل ہوئی اور اسکی دونوں آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ وہ اپنے بیلچہ کو لے کر زمین پر بیٹھ گیا اور بارگاہ خدا میں عرض کیا۔ خدایا! جب تک تو نے میرے لئے بینائی کو بہتر سمجھا، میں بینائی کو پسند کرتا رہا، اب تو میرے لئے نابینائی کو بہتر سمجھ رہا ہے تو اب مجھے نابینائی بینائی سے زیادہ محبوب ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مشاہدہ کیا کہ اس شخص نے مقام رضا کو حاصل کر لیا ہے ۔ اس سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: بندہ خدا! میں اللہ کا نبی موسیٰ ہوں۔ میں مستجاب الدعوہ ہوں۔ کیا میں دعا کروں کہ اللہ تجھے بینائی دے دے؟
اس نے کہا نہیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: کیوں؟ تو اس نے کہا: میرے مولا (خدا) نے جو میرے لئے بہتر سمجھا وہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے جو میں اپنے لئے بہتر سمجھوں۔
مذکورہ واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مقام رضا وہ عظیم مقام ہے جو محبت پروردگار کی معراج اور کامل اخلاص کی علامت ہے۔ جہاں بندے کی نہ اپنی کوئی خواہش ہوتی اور نہ ہی کوئی آرزو۔
علمائے ربانی نے اخلاص کی دو منزلیں بیان کی ہیں۔
۱. ایک منزل وہ ہے جہاں انسان کی ساری کوشش یہ رہتی ہے کہ واجبات کو ادا کرے اور حرام سے پرہیز کرے تا کہ معبود راضی ہو جائے اور یہ ہر مسلمان پر واجب بھی ہے۔
۲. ‌دوسری منزل وہ ہے جو پہلی منزل سے زیادہ عظیم اور سخت ہے کہ انسان قضا و قدر الہی پر راضی ہو۔ اللہ کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم ہو۔ اگر صحت ہے تب بھی خالق کا شکر، مرض ہے تب بھی اس کا شکر، فقر میں بھی اس کا شکر اور ثروت میں بھی اس کا شکر، موت پر بھی اس کا شکر اور زندگی پر بھی اس کا شکر۔ جیسا کہ اسی جانب ہمارے پانچویں امام حضرت محمد باقر علیہ السلام نے جناب جابر کو متوجہ کیا تھا۔
منقول ہے کہ ایک شاگر نے اپنے استاد سے پوچھا کہ رضائے الہی کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟ استاد نے حکم دیا کہ آج قبرستان جا کر مردوں کی توہین کرو۔ شاگرد نے بغیر کسی چوں و چرا کے استاد کے حکم کی اطاعت کی اور جب دوسرے دن استاد کو جا کر بتایا تو انہوں نے پوچھا کہ جب تم نے مردوں کی توہین کی تو کیا انہوں نے جواب میں کچھ کہا؟ اس نے کہا کہ نہیں تو استاد نے دوسرا حکم دیا کہ آج قبرستان جا کر مردوں کی تعریف کرنا۔ شاگرد نے اطاعت کی اور دوسرے دن استاد کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا تو استاد نے پوچھا کہ جب تم نے مردوں کی تعریف کی تو کیا انہوں نے کچھ کہا تو اس نے کہا کچھ نہیں کہا۔ تو استاد نے فرمایا: اللہ کی رضا اور خوشنودی بھی اسی طرح حاصل کرو کہ نہ لوگوں کی تعریف سے خوش ہو اور نہ ہی ان کی توہین سے رنجیدہ ہو بلکہ اپنی راہ پر چلو اور اپنے فریضہ کو ادا کرو۔
بات آ گئی تو بیان کر دوں کہ حقیر نے ایک بزرگوار سے بیان کیا کہ ماشاء اللہ فلاں صاحب تو آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں اور وہ آپ کی صلاحیتوں کا قصیدہ پڑھتے ہیں تو انہوں نے مسکرا کر فرمایا کہ جب کوئی مجھے احمق اور حقیر کہتا ہے، توہین کرتا ہے تو ہم اس پر یقین نہیں کرتے لیکن جب کوئی تعریف کرتا ہے تو کیوں فورا یقین کر لیں اور کیوں خوش ہو جائیں۔
مرضی معبود پر راضی ہونے کے مصداق اتم و اکمل اہلبیت علیہم السلام ہیں۔ اگر ہم تاریخ اہلبیت علیہم السلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس کے عملی نمونے ملیں گے۔ چاہے وہ امیرالمومنین علیہ السلام ہوں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہوں، یا امام حسن علیہ السلام یا امام حسین علیہ السلام بلکہ ہر امام کی زندگی رضائے معبود پر گامزن تھی چاہے منبر پر ہوں یا قید خانے میں۔
وَأعُوذُ بِكَ مِمّا يُؤذيكَ۔ ہر اس چیز سے پناہ کا طلبگار ہوں جو تیرے لئے باعث اذیت ہے۔
اب ہمیں دیکھنا ہو گا کہ میرے پروردگار کو کن باتوں سے اذیت ہوتی ہے تاکہ اس سے پرہیز کریں۔ قرآن کریم نے اس سلسلہ میں بشریت کی رہنمائی کرتے ہوئے متعدد کاموں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس مختصر تحریر میں ہم صرف ان میں سے چند کی جانب اشارہ کریں گے۔
سماج میں فساد، سود، مظلوموں پر ظلم و ستم، غرور و گھمنڈ، لوگوں کے ساتھ خیانت، بد زبانی اور دوسروں کو گالی دینا، توہین کرنا، اسراف، دولت کی جمع آوری اور اس کے ذریعہ لوگوں کی توہین سے اللہ کو اذیت پہنچتی ہے لہذا اس سے ہم پرہیز کریں۔
و أسألُکَ التّوفیقَ فیهِ لأنْ أطیعَکَ و لا أعْصیکَ۔ اور تجھ سے توفیق کا طلبگار ہوں کہ میں تیرا اطاعت گذار رہوں اور تیری نا فرمانی نہ کروں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ جس طرح بعض نیک کاموں کے سبب توفیق الہی انسان کے شامل حال ہوتی ہے اسی طرح بعض ایسے گناہ ہیں جو سلب توفیق کا سبب ہوتے ہیں۔
جو توفیق الہی اور ہدایت خدا سے محروم کرتے ہیں انمیں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
۱. فاسق۔ وَمَا يُضِلُّ بِهٖ اِلَّا الْفَاسِقِيْ۔ اور گمراہی تو صرف انہیں کا مقدر ہے جو فاسق ہیں۔ (سورہ بقرہ۔ آیت ۲۶)
۲. ظالم. وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ. ‌اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرے گا۔ (سورہ بقرہ۔ آیت ۲۵۸)
اسی طرح ریاکار اور وہ لوگ بھی ہدایت سے محروم ہیں جو خود اپنی اور اپنے گھر والوں کے تحفظ کی خاطر کفار سے تمسک اور انکی پناہ کے طالب ہوتے ہیں۔ (سورہ بقرہ آیت ۲۶۴، سورہ مائدہ آیت ۵۱) لہذا ان سے بچنا ہمارا اہم فریضہ ہے۔
توفیق الہی اور ہدایت خدا جن کے شامل ہوتی ہے انمیں سے دو گروہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱. راہ خدا میں جد و جہد کرنے والے۔ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ۔ اور جو لوگ ہماری خاطر جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیتے ہیں اور بے شک اللہ محسنین کے ساتھ ہے۔ (سورہ عنکبوت۔ آیت ۶۹)
۲. رضا و رضوان الہی کے طلبگار ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِ‌ضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِ‌جُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ۔ جس کے ذریعہ سے خدا ان لوگوں کو سلامتی کے راستوں پر چلاتا ہے جو اس کی رضا کی اتباع و پیروی کرتے ہیں اور ان کو تاریکیوں (گمراہی) سے اپنے اذن و توفیق سے نور (ہدایت) کی طرف لاتا ہے اور انہیں سیدھے راستہ پر لگاتا ہے۔ (سورہ مائدہ، آیت ۱۶)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .