حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق؍حجۃ الاسلام و المسلمین حبیب اللہ فرحزاد کا خطاب گزشتہ شب 25 اپریل کو قم کی جامع مسجد میں منعقد ہوا، جس کا متن آپ ذیل میں پڑھ سکتے ہیں۔
اولین و آخرین میں سے ہر ایک امیر المومنین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اس مضمون کو آیات و روایات میں دیکھا جاسکتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں ارشاد ہے:«قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا؛ فرما دیجئے: اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لئے روشنائی ہوجائے تو وہ سمندر میرے رب کے کلمات کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا اگرچہ ہم اس کی مثل اور (سمندر یا روشنائی) مدد کے لئے لے آئیں»۔ «کلمات الله» سے مراد اہل بیت علیہم السلام ہیں۔
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:لَوْ أَنَّ اَلْغِیَاضَ أَقْلاَمٌ وَ اَلْبَحْرَ مِدَادٌ وَ اَلْجِنَّ حُسَّابٌ وَ اَلْإِنْسَ کُتَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَ أَمِیرِ اَلْمُؤْمِنِینَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ.؛ اگر درخت قلم بن جائیں اور دریا روشنائی، جنات حساب و کتاب کریں اور انسان لکھیں تو بھی فضایل علی بن ابی طالب علیه السلام کو یکجا اور شمار نہیں کرسکتے. (بحارالأنوار 49/40، بنقل از مناقب خوارزمی) ۔
معراج کا سفر ولایت کا سفر تھا۔ معراج کی رات جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجی ملاقات کی تو آپس میں گفتگو ہوئی۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:«عُرِجَ بِالنَّبی صلی الله علیه و آله اِلَی السَّماءِ مائَةً وَ عِشرینَ مَرَّةً ما مِن مَرَّةٍ اِلّا وَ قَد اَوصی اللهُ النَّبیَّ صلی الله علیه و آله بِوَلایَةِ عَلِیٍّ وَ الأَئِمَّةِ مِن بَعدِهِ اَکثَرَ مِمّا اَوصاهُ بِالفَرائِّضِ» یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سو بیس مرتبہ معراج حاصل ہوئی۔ جب بھی خدا نے پیغمبر اکرم (ص) سے ملاقات کی یہی کہا کہ علی علیہ السلام اور ان کے بعد کے ائمہ علیہم السلام کی ولایت کا خیال رکھا جائے۔ اس ایک سو بیس مرتبہ معراج میں اللہ تعالیٰ نے نماز اور روزے کی سفارش نہیں کی ہے بلکہ صرف ولایت کی سفارش کی ہے۔ یہ ولایت جڑ اور بنیاد ہے۔
انبیاء و مرسلین علیہم السلام اس لیے آئے کہ وہ کائنات کے سامنے علی علیہ السلام کو پیش کریں اور انھیں پہچنوائیں۔اگر کوئی قرآن اور احادیث سے رجوع کرے، تو اس پر یہ سارے مطالب واضح و روشن ہیں۔ روایت میں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی پوری زندگی میں اتنا رکوع کرے کہ کمان کی طرح جھک جائے، اتنے روزے رکھے کہ سوکھی مَشک کی طرح ہوجائے،خوب طواف کرے اور اپنا سارا مال مسکینوں کو دے دے، لیکن کہے کہ میں علی (ع) کو قبول نہیں کرتا تو نہ صرف اس کے اعمال قبول نہیں ہوتے بلکہ اسے اس کے سارے اعمال ھَبط و ضبط کر کے اسے منہ کے بل اَوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں خدا کسی طرح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھتا۔ حتیٰ کہ بعض انبیاء کو جنہوں نے اہل بیت (ع) کے مقام کی تمنا کی یا ان کی ولایت کو دیر سے قبول کیا ان کی سرزنش کی گئی۔
اہل بیت(ع) کی ولایت خدا کی ولایت ہے
ایک روایت میں آیا ہے:«ولايتنا ولاية الله التي لم يبعث نبيا قط إلا بها» یعنی ہماری ولایت عینِ ولایت الٰہی ہے، جتنے بھی انبیاء آئے وہ اسی ولایت کے ساتھ بھیجے گئے۔درحقیقت جس نے ولایت کو رد کیا اس نے خدا کو جھٹلایا۔ اگر کوئی دین کے ضروری احکام کو رد کرے تو وہ مرتد ہے، ہمارے پاس ایسا کون سا حکم اور فرمان ہے جو امیر المومنین (ص) کی ولایت سے بڑھ کر ہو جیسا کہ خدا نے پیغمبر اکرم (ص) سے فرمایا:«يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ»۔
ہمارے پاس توحید کے بارے میں بھی ایسی روایت نہیں ہے جس میں کہا گیا ہو کہ جو توحید کو قبول نہیں کرے گا اسے جہنم میں منہ کے بل ڈالا جائے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اگر کوئی علی (ع) کا دشمن ہو تو یہ ناقابل معافی گناہ ہے اور اس شخص سے کوئی عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔
خلیفۂ ثانی کی متعارف کردہ بدعات میں سے ایک نماز تراویح ہے جس میں قرآن کے تیس جزء پڑھے جاتے ہیں۔ اپنی خلافت کے دوران، علی علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام سے کہا کہ لوگوں کو بتائیں کہ یہ نماز بدعت اور حرام ہے۔ امام حسن علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ تمھارے امام فرماتے ہیں کہ یہ نماز بدعت ہے لیکن لوگوں نے مزاحمت کی اور قبول نہیں کیا۔ انہوں نے ایسی بدعتیں متعارف کروائیں کہ جنھیں علی علیہ السلام نہیں بدل سکے اور اگر بالاجبار بدلنے کی کوشش کرتے تو بہت پہلے سے خانہ جنگی شروع ہوجاتی۔یعنی اتنے الٰہی فضائل و کمالات کے باوجود امّت کا برتاؤ جناب امیر علیہ السلام کے ساتھ ایسا رہا۔اسے کہتے ہیں اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا۔
روایت ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک صراط عبور نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے پاس امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کا ٹکٹ اور جَواز نہ ہو، یعنی جو ان سے محبت کرے گا وہی صراط سے گزرپائے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب فاطمہ بنت الاسد کو دفن کیا گیا تو مبشّر و بشیر نے قبر میں آکر آپ سے پوچھا کہ کی آپ کا امام کون ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرمادئیں "میرا بیٹا" یعنی اگر آپ امیر المومنین (ع) کی والدہ ہیں تب بھی آپ کے پاس ان کی ولایت کا ہونا ضروری ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے بھی پوچھا گیا کہ آپ کا امام کون ہے تو آپ نے فرمایا یہ اوپر بیٹھا شریف شخص میرا امام ہے۔ لہٰذا ولایت علی (ع) سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ نماز میں استثنا پایا جاتا ہے مثلاً اگر کوئی اذان سے نماز کے آخر وقت تک بے ہوش ہو جائے تو نماز اس سے ساقط ہو جائے گی۔ اگر کوئی بیمار ہو تو روزہ نہیں رکھتا۔ لیکن ولایت سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ فرشتوں کے معاملے میں بھی ملتا ہے کہ جنھوں نے اہل بیت علیہم السلام کو ماننے اور ان پر ایمان لانے میں دیری کی ان کی سرزنش کی گئی۔ وہ عظیم عمل جو "فاروق اور میزان" ہے وہ ولایت ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر المومنین (ص) کو مخاطب کر کے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو ستر فضیلتیں عطا کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں جو کہ رسول اللہ ہوں دنیا و آخرت میں آپ سے بے نیاز نہیں اور تم پر لازم ہے کہ میری مدد کرو۔ لہذا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے کرتا دھرتا بھی امیر المومنین علیہ السلام ہی تھے۔