تحریر: مولانا مصطفی علی خان ادیب الہندی
حوزہ نیوز ایجنسی | اللہ تبارک و تعالی نے مخلوقات کو خلق کیا تو انہیں لاوارث نہیں چھوڑا بلکہ ان کے لیے ایک نظام بھی بنایا اور اللہ کا بنایا نظام کل بھی لاجواب تھا اور آج بھی بے مثال ہے۔
دنیا میں جتنے بھی آئین اور قوانین بنتے ہیں ان میں کبھی نہ کبھی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان چاہے جتنا بھی عالم اور عاقل ہو وہ اپنے زمانے کے لحاظ سے قانون بناتا ہے اور اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق آئین مرتب کرتا ہے جو بعد کے زمانے کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا بلکہ بعد کے زمانے والوں کے لیے ایک مصیبت اور پریشانی بن جاتا ہے۔ اس لیے ہر زمانے میں قانون میں تبدیلی آنا انسان کی ضرورت ہے۔
لیکن چونکہ خداوند عالم تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات کا خالق ہے، پروردگار زمانے کا بھی خالق ہے چاہے وہ ماضی ہو حال ہو یا مستقبل، لہذا اس سے زمانہ کی کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ حال کی کوئی چیز مخفی ہے اور نہ ہی مستقبل کی کسی چیز سے وہ عدم آشنائی رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے جس طرح مخلوقات کی خلقت میں امتیازات رکھے کہ کوئی ناقص نہ رہے (اگر کوئی ناقص الخلقت ہے تو اس میں بھی اللہ نہیں بلکہ بندے کی خطا ہے۔) اسی طرح اس نے ان کے لیے ایک نظام معین کیا کہ جس کے ذریعے ایک مخلوق دوسری مخلوق کے کام تو ضرور آئے لیکن کسی کے لیے مشکل ایجاد نہ کرے۔
اگر آپ قدرت کے آثار پر نظر کریں تو آپ کو ہمارے مدعا پر قدم قدم پر دلیلیں ملیں گی۔ سورج چاند کو فائدہ پہنچاتا ہے لیکن کبھی چاند کے لیے مشکل ایجاد نہیں کرتا، ناظم پروردگار کا نظم لاجواب ہے کہ نہ کبھی سورج کے طلوع ہونے میں ایک لمحے کی تاخیر ہوئی اور نہ ہی کبھی سورج غروب ہونے میں ایک لمحے کی تاخیر ہوئی اسی طرح چاند ستارے ہوا جہاں بھی آپ نظر کریں گے وہاں آپ کو نظم پروردگار کے لاجواب نمونے نظر آئیں گے۔
ظاہر ہے انسان اشرف مخلوقات ہے تو اللہ نے انسان کے جینے کے لیے بھی لاجواب نظام قائم کیا نبیوں اور رسولوں کو ہادی اور رہبر بنا کر بھیجا، انسان کی ہدایت کے لیے کتابیں اور صحیفے نازل کیے تاکہ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آئے دوسرے کے لیے زحمت کا سبب نہ بنے۔ لیکن افسوس دنیا طلب، عہدہ و منصب اور اقتدار کی ہوس کے شکار لوگوں نے ہمیشہ نظام خدا کے مقابلے میں اپنا نظام پیش کیا۔ توحید کا انکار خدا کے مقابلے میں باطل خداؤں کی بھرمار، سچے رسولوں اور نبیوں کے مقابلے میں جھوٹے نبیوں کی یلغار اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
ہمارے حضور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کہ جن کی عظمت کو قرآن کریم نے "انک لعلی خلق عظیم" کی تعبیر سے یاد کیا، آپ کے اعلان رسالت سے قبل مکہ والے آپ کو صادق اور امین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ لیکن جیسے ہی آپ نے پرچم توحید بلند کیا اور اپنی رسالت کا اعلان کیا فورا ہی سب آپ کے مخالف ہو گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ صرف آخرت کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ دنیا میں بھی امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ان لوگوں کے اقتدار کو خطرہ ہوگا اور وہ دوسرے انسانوں کا استحصال نہیں کر پائیں گے۔
دشمن کی لاکھ مخالفت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے کار تبلیغ کو جاری رکھا اور اللہ نے آپ کی مدد کی اور اسلام پھیلنے لگا۔
جب حضور مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے حکومت قائم کی آپ کی حکومت میں نہ گورے کو کالے پر برتری تھی اور نہ ہی کالے کو گورے پر، اسی طرح نہ عرب کو عجم پر فضیلت تھی نہ عجم کو عرب کے اوپر برتری، آپ نے عجم کے جناب سلمان کو مرتبہ بخشا، حبش کے جناب جون کو عزت عطا کی۔
المختصر آپ کے عادلانہ نظام سے سب واقف تھے اور آپ نے بارہا امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے سلسلے میں فرمایا تھا کہ میرے بعد تم میں سب سے زیادہ عدل کرنے والے علی ہیں اس لیے سب کو پتہ تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد امیر المومنین علیہ السلام تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوئے تو وہی عادلانہ نظام قائم ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے قائم کیا تھا لہذا دنیا طلبوں اور اقتدار و قدرت کا ہوس رکھنے والوں نے مولائے کائنات امیر المومنین علیہ السلام کی مخالفت کی اور انہیں ان کے حق سے محروم کر دیا۔
جیسا کہ صدیقہ طاہرہ بضعۃ المصطفی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ اگر لوگ حق کو اس کے اہل کے حوالے کر دیتے تو قیامت تک دو لوگوں میں بھی اختلاف نہ ہوتا۔
لیکن افسوس صد افسوس کچھ لوگوں نے حق کو غصب کیا اور اہل حق کو حق سے محروم کر دیا اور بے بصیرت قوم نے نہ حق کی حمایت کی اور نہ ہی اہل حق کا ساتھ دیا نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی تعلیمات آپ کی سنت و سیرت پامال ہوتی رہی، اسلام کے نام پر غیر اسلامی بلکہ اسلام دشمن رسموں کو رواج دیا گیا دین کے نام پر بے دینی کو پروان چڑھایا گیا اور ظلم و ستم سے عاجز لوگوں نے حکومت کے خلاف قیام کیا کبھی کسی نے ذاتی طور پر حاکم پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کیا تو کبھی گروہ کی شکل میں ایوان حکومت کا گھیراو کیا اور حاکم کو قتل کر دیا۔
25 سال تک تڑپتی انسانیت کو آخر سمجھ میں اگیا کہ اگر عدل چاہتے ہیں اگر امن و سکون چاہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے نظام کو پھر سے قائم کرنا ہوگا اور یہ محمدی نظام امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور قائم نہیں کر سکتا لہذا لوگوں کا ایک ہجوم امیر المومنین علی علیہ السلام کے بیت الشرف پر آیا، مولا نے انکار کیا لیکن ادھر سے اصرار بڑھا آخر عدل کو قائم کرنے کی خاطر امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کی بیعت قبول کی۔ ایک مرتبہ پھر لوگوں نے محمدی نظام کو محسوس کیا کہ جس میں نہ عرب کو عجم پر فضیلت ہے نہ عجم کو عرب پر، نہ گورے کو کالے پر فوقیت ہے اور نہ ہی کالے کو گورے کے اوپر کوئی فوقیت ہے۔
جتنا اپنے غلام قنبر کو دیتے اتنا ہی خود لیتے تھے، اتنا ہی اپنے بیٹوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو بھی عطا کرتے تھے، جب کسی نے سبطین رسول حسنین کریمین علیہما السلام کے مشکل حالات دیکھے تو مولا سے سفارش کی کہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے فرزند ہیں تو ان کو تھوڑا زیادہ عطا کیا جائے تو امیر المومنین علیہ السلام نے نہ صرف اس کی سفارش رد کر دی بلکہ غضبناک ہو گئے۔
امیر المومنین علی علیہ السلام کی مملکت میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلمانوں کو بھی امن و سکون اور راحت میسر تھی آپ نے ایک عیسائی فقیر کو دیکھا تو تڑپ گئے اور اس کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا، جب ایک کافر ذمی خاتون پر ظلم کی خبر سنی تو افسوس کیا،
حاکم ہونے کے باوجود کوفہ کے بازار میں خود نگرانی کرتے ہیں کہ کہیں کوئی مسافر پریشان نہ ہو، کوئی امیر کسی غریب پر ظلم نہ کرے، کوئی پریشان حال پریشانی میں دم نہ توڑ دے۔
یتیموں پر خاص لطف و کرم کہ خود یتیموں کو اپنی آغوش میں بٹھا کر اس طرح کھانا کھلاتے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کو کھانا کھلاتا ہے، صرف دو لقمہ روٹی تناول فرماتے کہ کہیں حجاز و یمامہ میں کوئی بھوکا نہ ہو۔
المختصر امیر المومنین علیہ السلام کی چار سال چند ماہ کی حکومت کا مطالعہ کرنے والے بہتر جانتے ہیں کہ اگر امیر المومنین کو 25 سال پہلے یعنی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کے بعد حکومت سے محروم نہ کیا جاتا ہے تو یقینا دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا، نہ کہیں ظلم ہوتا نہ کہیں ستم ہوتا نہ کسی مظلوم کے خون سے ہولی کھیلی جاتی اور نہ ہی کہیں کسی یتیم کے آنسو بہتے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا بلکہ حقیقت ہو گی کہ ہم نے ظہور کے بعد جس عادلانہ نظام کے بارے میں روایات میں پڑھا اور سنا ہے وہ عادلانہ نظام رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کے بعد ہی قائم ہو جاتا۔
لیکن ایسا نہ ہوا جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں آج بے چینی ہے کہیں گورے کالوں کو قتل کر رہے ہیں تو کہیں اسلام دشمن طاقتیں اور ان کے حامی مظلوم مسلمانوں کے خون میں نہا رہے ہیں، کہیں نام نہاد مسلمان مومنین پر ظلم و ستم کر رہے ہیں اور ان کی جان و مال، عزت و آبرو سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔
ہماری زندگی کا مقصد بلکہ ہمارا نصب العین امیر المومنین علیہ السلام کے وارث اور جانشین امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کی تیاری ہے، لہذا ہمیں اس سلسلے میں غور کرنا ہوگا، فکر کرنا ہوگی، صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور سے اس تیاری میں قدم آگے بڑھانا ہونگے تاکہ جب وارث حیدر کرار فرزند مولود کعبہ دیوار کعبہ سے ظہور فرمائیں تو ہم ان کی رکاب میں شریک ہو سکیں۔