۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
سید حسین مومنی

حوزہ / حوزہ علمیہ کے استاد نے مجالسِ اہل بیت(ع) کی توہین کرنے والے افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی چیز ان کے گروپ یا سیاست کے مخالف ہو تو وہ مقدسات دینی اور اپنے خالص دینی اعتقادات پر بھی اعتراض کرنے سے باز نہیں آتے کہ جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ صرف زبانی مسلمان ہیں اور حقیقی ایمان و یقین سے کوسوں دور ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسین مومنی نے حرمِ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا قم میں خطاب کرتے ہوئے کہا: اسلام کا تعلق زبان پر کلمۂ شہادتین جاری کرنے سے ہے لیکن ایمان کے لئے تہہ دل سے اس پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہما السلام کی ولایت کو بھی صرف زبان سے تسلیم کرنا کافی نہیں بلکہ اسے دل و جان سے قبول کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے روایات میں ایمان کی علامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ایمان کی سب سے اہم علامت ایمان کے مطابق عمل کرنا یا واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔ دوسری علامت تقویٰ اور پرہیزگاری ہے یعنی انسان خداوندِ متعال سے ڈرے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرے کہ کہیں وہ اس سے چھن نہ جائے۔ ایمان کی تیسری علامت صراطِ مستقیم سے نہ ہٹنا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ غدیر میں فرمایا کہ "خدا، پیغمبر(ص)، امیرالمومنین(ع) اور اولادِ پیغمبر(ص) کہ جو علی ابن ابی طالب(ع) کی صلب سے ہیں، کی اطاعت ضروری ہے"۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے ایمان کی چوتھی نشانی کو مومنین کی ضروریات کی برآوری قرار دیا اور مزید کہا: مومن کی پانچویں علامت "دعا" ہے اور اس وقت مومن کی سب سے اہم دعا "اپنے ایمان کو برقرار رکھنا" ہے۔ ایک شخص کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ کے شیعہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دو قسم کے ایمان ہیں: ایک پختہ ایمان اور دوسرا مستعار ایمان۔ (براہِ کرم) مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جس سے میرا ایمان مکمل ہو جائے تو اس کے جواب میں امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھو "رضیتُ بالله ربّا …"۔

انہوں نے کہا: کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے ہم قرآن، احادیث، اجماع اور عقل سے کام لیتے ہیں اور اس کے ذیل میں بزرگوں کی سیرت کو بطور تصدیق و تائید بیان کرتے ہیں۔ مجالسِ اہل بیت (علیہم السلام) کو منعقد کرنا اور ان کی یاد منانا تعظیمِ شعائر کے مصادیق میں سے ہے کہ جس کا قرآنِ کریم نے حکم دیا ہے اور بہت ساری روایت میں بھی اس کی تاکید ہوئی ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ "جو کوئی بھی ہم اہل بیت (علیہم السلام) کا ذکر کرے گا اس کا دل کبھی بھی مردہ نہیں ہو گا"۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے کہا: اہل سنت علماء کے اجماع میں اہل بیت (علیہم السلام) کی مجالس میں شرکت سے منع نہیں کیا ہے اور شیعہ علماء نے بھی اہل بیت(علیہم السلام) کی مجالس میں شرکت اور ذکر کرنے پر تاکید کی ہے تو پس اگر عقلی طور پر بھی اس سے نتیجہ اخذ کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ "مجالس میں شرکت کرنا اور وعظ و نصیحت کا ذکر و بیان حسن اور پسندیدہ ہے اور عقل کے عین مطابق ہے"۔

انہوں نے کہا: ہر روز منبر عزاء برپا ہونا چاہئے اور اس سے "قال الباقر اور قال الصادق" کی صدائیں آنی چاہئیں۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی چیز ان کے گروپ یا سیاست کے مخالف ہو تو وہ مقدسات دینی اور اپنے خالص دینی اعتقادات پر بھی اعتراض کرنے سے باز نہیں آتے کہ جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ صرف زبانی مسلمان ہیں اور حقیقی ایمان و یقین سے کوسوں دور ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .