۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
سید حسین مؤمنی

حوزہ/ استاد حوزہ علمیہ قم نے پیغمبر اسلام(ص)کی امیر المؤمنین(ع)کو تعلیم کردہ ایک روایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مستحب اعمال کی جگہ واجب اعمال کی بجا آوری،دنیا کی جگہ آخرت کو آباد کرنے کی کوشش،دوسروں کی عیب جوئی کے بجائے اپنے عیبوں کی جانب متوجہ رہنا،بہت زیادہ عبادات بجا لانے کے بجائے کیفیت والی عبادت کی بجا آوری اور لوگوں کے سامنے اپنی ضروریات کو پیش کرنے کے بجائے خدا کی بارگاہ میں التجا کرنے سے بہت ساری اجتماعی اور انفرادی مشکلات برطرف ہو سکتیں ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسین مؤمنی نے زائرین حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا سے خطاب کے دوران یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے امیر المؤمنین علیہ السلام کو چھے جملوں کی تعلیم دی ہے جو کہ چھے ہزار جملوں کا خلاصہ اور بہت ساری اجتماعی اور انفرادی مشکلات کو برطرف کرنے کا ذریعہ ہے،کہاکہ رسول اللہ(ص)نے فرمایا:اے علی علیہ السلام جب سارے لوگ مستحب اعمال بجا لا رہے ہوں تو آپ واجب اعمال کی بجا آوری کے لئے کوشش کریں کیونکہ قیامت کے دن مستحب اعمال کے بجائے واجب اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیغمبر(ص)نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ جب دیکھو کہ سارے لوگ دنیا کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں اور ان کا ہدف دنیا کے حصول ہو تو آپ اپنی آخرت کے لئے کوشش کریں کیونکہ دنیا بہت جلد ختم ہونے والی چیز ہے اور جو چیز انسان کے لئے باقی رہنے والی ہے وہ آخرت ہے۔

استاد حوزہ علمیہ قم نے پیغمبر اسلام(ص)کے تیسرے فرمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رسول خدا(ص)نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ جب سارے لوگ دوسروں کی عیب جوئی میں مشغول ہوں تو آپ اپنے عیبوں کو برطرف کرنے میں مشغول ہو جائیں،آج سوشل میڈیا پر لوگ دوسروں کی تذلیل اور عیب جوئی میں مصروف عمل ہیں یہاں تک کہ تہمت اور جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں لہذا ہمیں ان چیزوں سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے چوتھے جملے کو دنیا کی جگہ آخرت کے گھر کو آباد کرنا قرار دیا اور کہا کہ آخرت کے گھر کی تزئین اور آباد کاری کا مطلب،ایمان کو مضبوط اور اچھے اعمال کی بجا آوری ہے لیکن کچھ لوگ اپنی دنیوی زندگی یہاں تک کہ اپنی قبروں کو اس قدر عالیشان بناتے ہیں جو کہ ان لوگوں کی دنیا سے بے پناہ محبت کی نشانی ہے۔

حجۃ الاسلام و المسلمین مؤمنی نے مزید کہا کہ پیغمبر اسلام(ص)کا امیر المؤمنین(ع)کو تعلیم کردہ پانچواں جملہ یہ ہے کہ جب لوگ بہت زیادہ اعمال اور عبادات بجا لا رہے ہوں تو آپ بہت کم لیکن باکیفیت اور اچھے اعمال بجا لائیں کیونکہ وہ عمل جو خضوع و خشوع کے ساتھ اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر بجا لایا جائے اگر چہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کی تأثیر زیادہ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آخری جملہ کہ جسے پیغمبر اسلام(ص)نے ارشاد فرمایا کہ جب لوگ اپنی ضرورتوں کو مخلوق کے سامنے لے کر جائیں تو آپ خدا سے التجا کریں اور خدا سے مانگیں کیونکہ خداتمام امور پر حاکم ہے اور اگر انسانوں کو کچھ مل رہا ہے تو وہ خدا نواز رہا ہے۔

استاد حوزہ علمیہ نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ان چھے جملوں کے بعد فرمایا کہ ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق کی اقرار کرنے والے نجات پائیں گے اگر چہ ان کا کوئی عمل بھی نہ ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کا حق کی اقرار اور دفاع کرنا،ان افراد اور اداروں کی مضبوطی کا باعث بنے گا اور حق گوئی کرنے والے افراد کا کم سے کم کام،حقانیت کی اقرار ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .