۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حجت الاسلام والمسلمین سید حسین مؤمنی

حوزہ/ استاد حوزہ علمیہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آج ہمارے کچھ نوجوانوں کی زندگی کا آغاز گناہ،ترک نماز اور خدا کی یاد سے غفلت کے ساتھ ہوتا ہے اسی لئے زندگیاں بےبرکت ہوجاتی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،خطیب حرم حضرت فاطمہ معصومہ(س)حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسین مؤمنی نے محفل میلاد سے خطاب کے دوران یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں نمونہ اور اسوۂ حسنۂ اپنانے کی ضرورت ہے،بیان کیا کہ قرآن ارشاد فرماتا ہے کہ تمہارے لئے بہترین اسوۂ حسنۂ پیغمبر(ص)کی ذات ہے اور پیغمبر اکرم(ص)نے بھی فرمایا کہ میں آپ لوگوں کے درمیان سے جاؤں گا لیکن قرآن اور اپنی عترت(ع)کو تمہارے درمیان چھوڑے جاؤں گا اور جو بھی ان دونوں سے متمسک رہے گا ہرگز گمراہ نہیں ہو گا۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تمام عترت و اہل بیت(ع) حضرت زہرا(س)کے زیر سایہ ہیں،کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا(ع)کی عملی زندگی،ہماری آج کی زندگیوں کے لئے مکمل طور پر نمونۂ عمل ہے اور معاشرے کی بہت ساری مشکلوں کو برطرف کر سکتی ہے۔

استاد حوزہ علمیہ نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا(س)کا رابطہ،اپنے باپ کے ساتھ ایک بیٹی کے عنوان سے بہت ہی بے نظیر اور مودبانۂ تھا،جب امیر المؤمنین(ع)پیغمبر(ص)کی خدمت میں حضرت زہرا(س)کا رشتہ لینے آئے تو اللہ کے رسول(ص)نے اس واقعے کو اپنی بیٹی سے بیان کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ باپ اپنی بیٹی کو کسی ایسے شخص سے شادی کرنے پر مجبور کرے جو کہ بیٹی کا پسندیدہ شخص نہیں ہو۔

انہوں نے کہا کہ شادی کے معاملے میں جوانوں کو اپنے والدین کی مرضی کا احترام کرنا چاہئے کیونکہ والدین کی دعائے خیر بچوں کے لئے کارساز ہوتی ہے اور وہ جواں جو زوجہ کے انتخاب میں اپنے والدین کی خواہش اور مرضی کا احترام نہیں کرے گا کل وہ کسی دوسرے تک پہنچنے کے لئے اپنی زوجہ کا خیال بھی نہیں رکھے گا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مؤمنی نے حضرت فاطمہ زہرا(س)کی ازدواجی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا(س)کی ازدواجی زندگی امیر المؤمنین(ع)کے تعلق سے ابتداء سے انتہا تک ادب و احترام پر مبنی تھی اور آپ نے کبھی امیر المؤمنین کو نام سے نہیں پکارا اور امیر المؤمنین نے بھی کبھی بھی حضرت فاطمہ زہرا(ع)کو ان کے اسم مبارک سے نہیں پکارا بلکہ ایک دوسرے کو بہترین القابات سے پکارتے تھے۔

انہوں نے حضرت زہرا(س)کی بچوں کی اخلاقی تربیت پر مبنی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی آئندہ نسلوں کی تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ خواتین ہیں اور خدا نے بچوں کی پرورش کی اہم ذمہ داری کو خواتین کے ذمے لگایا ہے اور اسی وجہ سے پیغمبر(ص)نے گھر کے کاموں کی ذمہ داریوں کو فاطمہ زہرا(س)اور گھر سے باہر کے کاموں کی ذمہ داری امیر المؤمنین(ع)کے ذمے لگائی تھی۔

استاد حوزہ علمیہ نے حضرت فاطمہ زہرا(س)کی ازدواجی زندگی سے متعلق خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ(ع)کی ایک اہم خصوصیت کو خدا کی بندگی قرار دیا اور کہا کہ خداوند عالم سورہ مبارکہ توبۂ کی آخری آیۃ میں ارشاد فرماتا ہے کہ اگر وہ( حق سے)منہ پھیر لیں(تو تم پریشان نہ ہو جانا) کہہ دو کہ خدا میری کفایت کرے گا۔اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے میں نے اس پر توکل کیا ہے اور وہ عرش عظیم کا پروردگار(اور مالک)ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمیں غم اور خوشی میں خدا کی یاد اور بندگی سے غافل نہیں ہونا چاہئے،کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا(س)نے شادی کی رات اپنی زندگی کا آغاز خدا کی راہ میں انفاق کے ذریعے کیا اور یہاں تک کہ دلہن کے بہترین لباس غریب کے حوالے کردیااور آپ(س)نے پرانا لباس زیب تن کیا اور اسی لباس میں ہی امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دولت سرا گئیں لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے کچھ نوجوانوں کی زندگی کا آغاز گناہ،ترک نماز اور خدا کی یاد سے غفلت کے ساتھ ہوتا ہے اسی لئے زندگیاں بےبرکت ہوجاتی ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .