۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
متولی آستان قدس رضوی

حوزہ/ آستان قدس رضوی کے متولی حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے " حماسہ حجاب " سیمینار میں تقریر کے دوران ، حجاب پر پابندی کے خلاف مسجد گوہر شاد تحریک کا ذکر کیا اور اس خونچکاں تحریک کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سانحے میں بہت سے با غیرت با ایمان اور قربانی دینے والے مومنین نے اعلی دینی و انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں گنوا دیں ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مشہد/"حماسہ حجاب " سیمینار مسجد گوہر شاد تحریک کی سالگرہ کے موقع پر امام رضا علیہ السلام کے حرم کے قدس ہال میں منعقد ہوا ۔

سمینار میں خطاب کرتے ہوئے آستان  قدس رضوی کے متولی نے قرآن مجید کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہ «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً» کہا کہ اس آیت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ نیک اعمال اور خداوند عالم کی قربت  اور انسان  کی روحانی ترقی و پیش رفت کے معاملے میں مرد و عورت میں کوئي فرق نہیں ہے اور خداوند عالم نے مرد و عورت کے لئے مساوی طور پر کمال کا راستہ کھلا رکھا ہے  ۔

تصویری جھلکیاں: روضہ امام رضا ( ع) میں مسجد گوہر شاد تحریک کی سالگرہ کے موقع پر "حماسہ حجاب " سیمینار کا انعقاد

انہوں نے حیات طیبہ اور الہی خلافت کے اہم عہدے پر فائز ہونے کے لئے کرامت کو ، انسانی وجود کا ایک گوہر قرار دیا اور کہا کہ اسلام کے تمام احکامات، انسانی عزت و کرامت پر مبنی ہیں اور خداوند عالم نے الہی احکامات اور شرعی قوانین کو بیان کرکے، انسانوں کی اس عزت و کرامت کے تحفظ کو یقینی بنا دیا ہے ۔

آستان قدس رضوی کے متولی نے انسانی نفس کے اعلی و قیمتی مرتبے  اور اس کے تحفظ کی اہمیت کا ذکر  کیا اور کہا کہ اسلام کے تمام احکامات، انسانی عزت وکرامت اور اس کی عزت نفس پر استوار ہیں اور حجاب بھی انہی احکامات میں سے ایک ہے۔

حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے حجاب کو ، سماج کے مختلف شعبوں میں خواتین کی سرگرمیوں کے لئے ایک اسلامی راہ حل قرار دیا اور کہا کہ اسلام نے حجاب اور خواتین کے عزت کے تحفظ  نیز سماج میں خواتین کے کردار پر بھی توجہ دی ہے ۔

آستان قدس کے متولی نے مزید کہا کہ مغرب نے خواتین کی آزادی اور ترقی کے نام پر انہیں ایک بڑی جیل میں قید کر دیا اور خدا کی اس با عزت مخلوق کو، شہوت پرست لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنا دیا ۔

حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے کہا کہ اسلام نے خواتین کی عزت اور شخصیت کا تحفظ کیا اور حجاب کا حکم دے کر سماج کے مختلف شعبوں میں اس کی سرگرمیوں کا راستہ کھولا اور اس کا اہتمام کیا ۔ حجاب ایک بڑی اور قیمتی نعمت ہے لیکن افسوس ہے کہ  جس طرح سے حجاب کے موضوع کو سمجھایا جانا چاہیے تھا اس طرح سے اسے سمجھایا نہيں گیا ۔

انہوں نے حجاب کو ایک فطری چیز قرار  دیا اور کہا کہ چونکہ حجاب، عورت کی سرشت سے مطابقت رکھتا ہے اس لئے اگر اس کی صحیح طریقے سے وضاحت کی جائے تو یقینا اس کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔

حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں حرم مطہر میں حجاب سے متعلق ثقافتی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور امام رضا علیہ السلام کے حرم میں ادارہ تبلیغات کو آستان قدس میں حجاب کے سلسلے میں ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ ادارہ اسلامی تبلیغات مختلف شعبوں اور حجاب کے ماہرین کے تعاون سے اس سلسلے میں ثقافتی سرگرمیاں انجام دے تاکہ مقدس حرم میں کچھ حضرات و خواتین کا پہناوا ، لیاس اور حجاب  کرنے کا طریقہ بہتر ہو سکے ۔

آستان  قدس رضوی کے متولی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مسئلہ حجاب کی اہمیت کی صحیح وضاحت سے سماج میں حجاب کا رواج بڑھے گا ، کہا کہ حجاب کے سلسلے میں ، مسلسل ثقافتی اور کلچرل سرگرمیوں کی ضرورت ہے اور اس شعبے میں ہم سب پر ذمہ داریاں ہيں ، اس سلسلے میں ہمیں اپنی پسند کے مطابق کام نہيں کرنا چاہیے کیونکہ اپنی مرضی سے کئے جانے والے کاموں کے اثرات ، تعمیری ہونے سے زیادہ تباہ کن ہو سکتے ہيں ۔

حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے نے کہا کہ خواتین کی عزت و شرافت کے لئے حجاب کے لا ثانی کردار کو بیان کرنے کے سلسلے میں ہم نے اس کی اہمیت کے لحاظ سے اور اس کے شایان شان کام نہيں کیا کیونکہ اگر ہم اس کے شایان شان اور اہمیت کے لحاظ سے کام کرتے تو یقینا سب لوگ حجاب کا خیر مقدم کرتے۔

واضح رہے ایران میں شاہی حکام نے جب ایران میں پوشاک کے طریقے میں تبدیلی اور خواتین کے حجاب کے خاتمے کا حکم دیا تو مشہد کے لوگوں نے امام رضا علیہ السلام کے حرم میں واقع ، مسجد گوہر شاد میں دھرنا دیا تھا ۔ یہ دھرنا تیرہ جولائي سن انیس سو پینتیس میں رضا شاہ کے دور اقتدار میں دیا گيا تھا اور عوام نے شاہی حکومت کے اس غیر اسلامی اور غیر انسانی اقدام کے خلاف غیر معمولی تحریک چلائي تھی ۔ دھرنا دینے والوں اور مظاہرین  پر شاہی حکومت کے گماشتوں نے حملہ کیا جس کی وجہ سے سولہ سو سے زائد لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے ۔ اس سانحے کے بعد ، مشہد کے علمائے دین گو گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گيا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .