۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سیدہ فائزہ زیدی

حوزہ/ معروف مذہبی اسکالر: دنیا کے وہ ممالک جہاں پر ریپ کیسز زیادہ ہیں اس کی اصلی وجہ احکام الہی کی پایمالی ہے، اگر خواتین مناسب‌ لباس پہن کر باہر نکلیں اور اپنے لباس کے ذریعے دوسروں کو جذب نہ کریں تو کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ وہ عورت کو میلی آنکھوں سے دیکھے اور اگر معاشرہ حجاب کی اہمیت کو سمجھے تو بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کراچی کی معروف مذہبی اسکالر سیدہ فائزہ علی زیدی نے موجود صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حجاب کے عنوان سے کہا کہ انسان فطرتاً ہر قیمتی چیز کو سنبھال کے رکھنا چاہتاہے اور کوئی بےوقوف ہی ہوگا کہ جو اپنی قیمتی ترین چیز کو اٹھا کے سٹرک پر پھینک دے، جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت کا ہم زیادہ انتظام کرتے ہیں اور جب دنیاوی چیزوں کو ہم اتنی اہمیت دیتے ہیں تو ہر ذی شعور حتی مغربی ممالک میں بھی بسننے والے ہوں، خواہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہ ہو تو بھی وہ اپنے زیورات اور قیمتی اشیاء کو سنبھال کے رکھے گا ،تاکہ وہ خراب یا چوری نہ ہوں اور اس کو لوگوں کی دسترس سے دور کیا جاتا ہے، تو اسلام نے عورت کو بہترین مقام کے ساتھ انتہائی قیمتی قرار دیا ہے اور یہ خواتین کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے لیکن کوئی اگر عورت کو حقیر سمجھتا ہے تو اس سے بدقسمت شخص کوئی نہ ہوگا۔کیونکہ عورت کو خداوند کریم نے عزت اور شرف دے کرخلق کیا ہے اور یہ کہیں پر بھی نہیں لکھا ہوا ہے کہ صرف مسلمان خواتین کی ہی عزت کی جائے،جس طرح ہر انسان قابل تعظیم اور عزت ہے ،اسی طرح ہر عورت خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو وہ قابل عزت اور احترام ہے ۔ خداوند متعال نے جس طرح عورت کو عزت دی اور قیمتی قرار دیا اسی طرح حجاب کو خواتین کی حفاظت کا ذریعہ بنایا اور خداوند متعال نے سورہ نور کی آیت نمبر 31 میں خواتین کے لیے واضح طور پر فرمایا ہے کہ “ اور باایمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو (نگاہِ ہوس آلود سے) بند رکھیں اور اپنا دامن محفوظ رکھیں اور سوائے اس حصّے کے کہ جو ظاہر ہے اپنے بناوٴ سنگھار کو آشکار نہ کریں اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے سینے پر ڈالیں (تاکہ اس سے گردن اور سینہ چھپ جائے) نیز اپنے شوہروں، اپنے آباوٴ اجداد ، اپنے شوہروں کے آباوٴ اجداد، اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھائیوں کے بیٹوں، اپنی بہنوں کے بیٹوں، اپنی ہم مذہب عورتوں، اپنی مملوک عورتوں اور کنیزوں، کسی عورت کا طرف میلان نہ رکھنے والے مردوں یا ان بچوں کے، جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے آگاہ نہ ہوں، کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا بناؤں سنگھار ظاہر نہ کریں، وہ اس طرح سے زمین پر پاؤں مارکر نہ چلیں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر ہوجائے (اور پازیبوں کی جھنکار لوگوں کو سنائی دے) اور الله کی طرف لوٹ آوٴ تاکہ فلاح پا جاو۔

انہوں نے سورہ نور کی آیت نمبر 30 کا اشارہ کرتے ہوئے کہ چونکہ اسلام دین فطرت اور رحمت ہے تو اللہ تعالیٰ نے صرف خواتین کو حجاب کا حکم نہیں دیا بلکہ مردوں کو بھی حجاب کرنے کا حکم دیا ہے جن کا خیال رکھنا ضروری ہے اور خواتین کو چونکہ قیمتی بنایا گیا تو اس کو چھپانے کا حکم بھی دیا کیونکہ خداوند نہیں چاہتا کہ ہر ایک اس سے لذت حاصل کرے اور لطف اندوز ہو، لیکن خدا چاہتا ہے وہ قیمتی ہی رہے اور فقط اس کو اس کا محرم دیکھے اور محرم وہ ہے جس کا خداوند متعال نے سورہ نور میں انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے اس کے بعد کوئی گمان نہیں رہ جاتا اور حجاب کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوجاتی ہے۔

آسمانی مذاہب میں حجاب کی تاریخی حیثیت

سیدہ فائزہ زیدی نے آسمانی مذاہب میں حجاب کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ حجاب یعنی چھپانا ، یعنی ہر اس چیز کو چھپانا ضروری ہے جو قیمتی ہو اور یہ فطری عمل ہے، اگر کوئی کہے کہ ہم تو اپنی قیمتی چیزوں کی حفاظت نہیں کرتے، جو چاہیے استعمال کرسکتا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام میں حجاب کا جو نظریہ ہے وہ غیر فطری عمل ہے اور ظلم ہے لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کہے گا۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مختلف ادیان نے حجاب کو انتہائی اہمیت دی ہے، یہودیوں اور عیسائیوں کی تاریخ بھی دیکھیں تو وہاں بھی حجاب کی اہمیت کے حوالے سے کافی تاکید موجودہے، جیسے آپ موجودہ بائبل کو دیکھیں اس میں جناب عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے “تم سے کہا گیا تھا کہ عورتوں کو نہ دیکھو میں یہ کہتا ہوں کہ تم ان کے برقعوں پر بھی نظر نہ ڈالو” تو یہ عہد قدیم میں حجاب پر مبنی موجود اقوال میں سے ہے، تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیت میں بھی حجاب کے حوالے سے کافی تاکیدات موجود ہیں تو حجاب کے حوالے سے فقط اسلام نے عورت کوپابند نہیں کیا ہے بلکہ باقی ادیان بھی حجاب کے سخت حامی ہیں۔لیکن آج مغرب حجاب سے دور ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ دیگر ادیان میں حجاب کی کوئی اہمیت نہ ہو، درحقیقت آج کے دور میں ان ممالک میں حجاب کا فقدان ہے تو ایک خواتین کی حیثیت کو کم کرنے کی استعماری سازش ہے ۔
اسلام سے پہلے بھی تمام شریعتیں خدا کی جانب سے آئی ہیں اور خدا کا نظام تبدیل تو نہیں ہوگا اور جس کو جو مقام دیا ہے وہ ہر دور اور ہر دین کے لیے ہے اور عورت ہر دین میں محترم رہی ہے اس لیے خدا چاہتا ہے کہ اس قیمتی نعمت کو انسان سنبھال کے رکھے، لیکن افسوس یہ ہے کہ آج مختلف ادیان کے ماننے والوں نے ان تعلیمات کو بھلا دیا ہے اور اس کا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ان معاشروں میں کتنی خرابیاں ہیں۔

محترمہ زیدی نے بحیثیت مسلمان حجاب اور اس کی طرف دعوت کی ہماری کیا ذمہ داری کیا ہے اس تعلق انکا کہنا تھا کہ اسلام میں ہمیں امربالمعروف و نہی از منکر کا حکم ہے، یعنی نہ فقط آپ نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی دعوت دینی ہے اور بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود حجاب کریں اور خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو فروغ دیں اور اس فریضے کو انجام دینے والا درحقیقت مجاہد اور مدافع نظام الہیٰ ہے۔

خدا کے نظام کو فالو اور اس کی ترویج کرنے کو ہم نے کربلا سے سیکھا ہے اور ہمیں کربلا نے پیغام دیا ہے کہ خدا کے پیغام کو پہنچانے لیے ہرگز تعداد نہ دیکھیں اور ظاہر طاقت نہ ہونے کا بہانہ نہ کریں، بلکہ ہمیں اپنے جذبہ ایمانی کی طاقت سے اس الہی پیغام پر عمل کرتے ہوئے جناب حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی طرح اس کا پرچار بھی کرنا ہےاور اس کا سب سے بہترین طریقہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تبلیغ کرنا ہو تو زبان سے نہ کرو بلکہ تبلیغ کرنے کا جو بہتر طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے عمل سے لوگوں کو متاثر کرنا چاہیے ۔

بحیثیت خاتون میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں جہاں پر بھی جاتی ہوں، حجاب میں اپنے آپ کو انتہائی باعزت محسوس کرتی ہوں ،لہذا خواتین کو چاہیے کہ جہاں بھی جائیں وہاں پر حجاب کرکے عمل سے ثابت کریں کہ میں حکم خدا کو تمام چیزوں پر مقدم رکھتی ہوں اور یہ عمل جہاد ہے اور جو خاتون دل سے حجاب کرتی ہے وہ خود بھی سکون محسوس کرتی ہے اور اسلام کے لیے بھی باعث فخر ہے۔

آج تعلیم یافتہ خواہران بھی حجاب کو افتخار سمجھتی ہیں

آج ہمارے معاشرے میں حجاب کی صورتحال ناامیداور مایوس کن نہیں ہے، کچھ سال پہلے ماحول یہ تھا کہ بے پردہ خواتین کو تعلیم یافتہ اور مہذب جانا جاتا تھا اور وہ زمانہ باحجاب خواتین کے لئے بہت مشکل دورتھا، کیونکہ باحجاب خاتون کو اس وقت معاشرہ بلکل ہی حقیر، بیچاری اور ان پڑھ سمجھتا تھا، لیکن الحمدللہ اب تیزی کے ساتھ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان لڑکیوں میں یہ شعور پیدا ہو رہا ہے کہ ہمیں پردہ کرنا چاہیے اور اللہ کے دستور کو ماننا چاہیے اور یہی ہمارے لیے باعث افتخار ہے اور نوجوان لڑکوں میں بھی یہ چیز ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے کہ وہ بھی اپنے لیے شریک حیات کا جب انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو وہ حجاب والی لڑکیوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسی طرح تعلیم یافتہ خواہران بھی حجاب کو افتخار سمجھتی ہیں۔

ہر معاشرہ یا والدین بہن بھائی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری مائیں بہنیں باعفت ہوں

عفت ایک حساس موضوع ہے اور ہر معاشرہ یا والدین بہن بھائی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری مائیں بہنیں باعفت ہوں اور اگر کوئی معاشرہ اس بات کا قائل نہ ہو تو انتہائی افسوس کی بات ہے جیسے کہ مشہور جملہ ہے کہ عورت کی بے پردگی مرد کی بے غیرتی ہے اور یہ صرف مسلمانوں یا اسلام سے مربوط نہیں ہے بلکہ عام طور پر خواتین کا لباس مرد کی غیرت کی عکاسی ہے اور مرد جتنا باغیرت اور باضمیر ہوگا وہ عورت کی لباس کے حوالے سے حساس ہوگا۔

دنیا کے وہ ممالک جہاں پر ریپ کیسز زیادہ ہیں اس کی اصلی وجہ احکام الہی کی پایمالی ہے، اگر خواتین مناسب‌ لباس پہن کر باہر نکلیں اور اپنے لباس کے ذریعے دوسروں کو جذب نہ کریں تو کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ وہ عورت کو میلی آنکھوں سے دیکھے اور اگر معاشرہ حجاب کی اہمیت کو سمجھے تو بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

کیا حجاب خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور ان کے مقید ہونے کا سبب بنتا ہے؟

سیدہ فائزہ زیدی نے کہا کہ حجاب عورت کی محدودیت کا سبب نہیں بنتا ہے بلکہ ہمارے دین نے ہمیں بتایا ہے کہ حجاب کی رعایت کے ساتھ ہم سارے جائز کام کرسکتے ہیں اور معاشرے میں حجاب پہن کرلڑکیاں مختلف شعبوں میں مصروف عمل ہیں اور عورت کو یہ چیز سمجھنا چاہیے کہ اسلام نے جس چیز سے منع کیا ہے اس میں اس کا فائدہ، عزت اور احترام ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں عورت مارچ کے نام پر کیا ہورہا ہے لیکن آپ کے چیخنے سے کوئی صحیح کام غلط نہیں ہوسکتا اور وقت ثابت کرے گا کہ جو پروردگار نے کہا ہے وہی حق اور سچ ہے۔

جتنی آزادی اور احترام خواتین کے لیے اسلام نے دیا ہے وہ کہیں پر بھی نہیں ہے، باحجاب خواتین پاکستان میں پائلٹ بھی بنیں ہیں اور ڈاکٹرز ،انجینئر اور فوجی افسر بھی بنیں ہیں اور عزت اور وقار کے ساتھ مختلف شعبوں میں اپنے آپ کو منوا رہی ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .