تحریر : محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی। عورت اس کائنات کی وہ ہستی ہے جس کے بغیر نہ انسان کامل ہوتا ہے نہ کائنات پررنگ ہوتی ہے۔ عورت کے بغیر نہ فطرت چل سکتی ہے نہ کوئی گھر چل سکتا ہے نہ ہی ایمان کامل ہوتا ہے۔عورت ادیان عالم سے لے کر ادیبان عالم تک اور فلسفیان عالم سے لے کر شعراء حضرات تک کے لیے ایک اہم موضوع رہی ہے۔ فلم سازوں اور ڈرامہ نگاروں کے لیے یہ اپنی تخیلات و خواہشات کی تسکین اور کمائی کا بہترین ذریعہ رہی ہے۔اگر حقوق و مقام نسواں کی بات کریں تو آج سے پانچ سوسال قبل مسیح کی یونانی تاریخ میں عورت بازاروں میں خریدی اور بیچی جانے والی چیزوں میں شامل تھی۔افلاطون نے اس زمانے میں عورتوں پر تمام پیشوں کے دروازے کھول دینے کی اپیل کی تھی البتہ خود مرد ہونے پر شکر ادا کیا کرتا تھا۔ان کے شاگرد ارسطو کی نگاہ میں عورت کی حیثیت کنیز جیسی تھی اس لیے سیاسی اور اجتماعی معاملات میں شرکت کرنے کی اہل نہیں سمجھتے تھے۔قدیم بابل کی تہذیب میں جسمانی بالغ بچیاں بازاروں میں باقاعدہ قانونی شکل میں بکا کرتی تھیں۔
مشرقی تہذیب میں عورت جب تک بیٹوں کی ماں نہ بنے حقیر و پست سمجھی جاتی تھی۔ جبکہ ہندو تاریخ میں مرد کے مرنے پہ بیوی کو اس کے ساتھ زندہ جلایا جاتا تھا۔مغربی دانشور نطشے جیسا فلاسفر نصیحت کرتا ہے کہ تم جب عورت کے پاس جائے تو اپنی چابک نہ بھولنا۔ جبکہ شوپن ہار کے نزدیک عورت ایک کوتاہ قد تنگ کاندھوں اور چھوٹی ٹانگوں والی ایک جنس ہے۔
اگر عورت کے مقام کو موجودہ تین بڑے ادیان میں دیکھیں تو قدیم یہودیوں میں جب بیٹی پیدا ہوتی تھی تو چراغ نہیں جلاتے تھے اور ہر یہودی لڑکا باقاعدہ یہ دعا کرتا تھا کہ اے خدا میں تیرا ممنون ہوں کہ تونے مجھے کافر یا عورت نہیں بنایا۔
جب کہ عیسائیت میں رہبانیت کے نام پر عورت کے فطری تقاضوں کو اخلاقی میدان میں زبردستی دبانے کے بعد مردوں کی ہوس کا نشانہ بناتے تھے۔عرب تو انہیں زندہ دفن کرتے تھے اور زندہ رکھنے کو باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ مگر اسی سرزمین عرب پر جب اسلام کا آفاقی تعلیمات کے حامل سورج طلوع ہوا تو عورت کو اصل مقام و منزلت سے سرفراز کردیا۔
بیٹی اور بہن کے روپ میں گھر کی شہزادی قرار دیا تو بیوی کے روپ میں شوہر کو واجب النفقہ قرار دے کر معاشی ذمہ داریوں سے آزاد کیا اور ماں کے روپ میں پیروں تلے جنت قرار دے کر اولاد کی بہترین تربیت کی ذمہ دار قرار دیا اور اولاد کو ہمیشہ والدین کا مطیع و فرمان بردار رہنے کا درس دیا۔عورت ذات کو عفت شرم وحیاء کی مالکہ قرار دے کر مرد کو باپ بیٹا اور بھائی کے روپ میں زندگی بھر کے لیے بہترین غیرت مند و بے لوث محافظ قرار دیا۔
جبکہ یورپ میں انیسویں صدی میں افریقہ کی عورتیں زراعتی مشینوں کی طرح بکتی تھیں۔”شوپن ہار“ اور ”نطشے“ جیسوں کے متعصبانہ اور تضحیک آمیز نظریات کا دور دورہ تھا۔انگلستان میں شوہر قانونی دائرے میں بیوی پر خوب ظلم کیا کرتے تھے۔اس کے کمائے ہوئے پیسوں کا بھی شوہر مالک ہوا کرتا تھا۔اسی دور میں یورپ میں نت نئی مشینیں آگئی تھیں جدید مشینوں کی آمد سے بڑے بڑے کارخانے اور ان کارخانوں سے نئے نئے شہر آباد ہورہے تھے تقریباً 1882ء میں عورتوں کی ظاہری آزادی کے بارے میں برطانیہ نے پہلا آئینی قدم اٹھاتے ہوئے فرمان جاری کیا کہ عورتیں اپنی کمائی ہوئی مزدوری اپنے پاس رکھ سکتی ہیں۔جبکہ اسلام نے یہ حق عورتوں کو چودہ سو سال پہلے دے دیا تھا۔ اسلام نے اسے ”حق مہر“ سے لے کر ”تحفہ تحائف“ اور باپ کی ”وراثت“ سے لیکر شوہر کے ”تڑکے“ تک کی مالک بنایا تھا۔
یورپ میں اس قانون کے بعد صنعتکاروں،ملز مالکان اور کارخانوں کے مالک اشرافیہ نے عورتوں کو کم تنخواہ میں اپنے کارخانوں میں مال بنوانے پر لگادیا وہاں کی عورتوں نے اسے آزادی کے نام پہ تسلیم کرلیا۔پھر 8 مارچ 1907ء کو نیو یارک میں لباس سازی کی حیثیت سے وابستہ چند خواتین نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا جسے مالکان نے رد کردیا چونکہ ان کی نظر میں عورتوں کے اتنے حقوق کافی تھے جن سے ان کے کارخانوں کو فائدہ ہو۔مطالبات آخر میں مظاہرات میں بدل گئے جس پر سرمایہ داروں کی حکومت کی آلہ کار پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔سرمایہ دارانہ حکومت میں خواتین کی توہین کا ایک سلسلہ شروع ہوا تین سال تک مظاہرے اور توہین کا سلسلہ وقتاً فوقتاً چلتا رہا۔1910ء میں اس تحریک کے ایک کارکن نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ ہر سال 8 مارچ کو یوم خواتین منایا جائے اس دن سے رفتہ رفتہ دیگر ممالک میں یہ دن ”حقوق نسواں“ کے نام سے منایا جارہا ہے۔پاکستان میں بھی کم و بیش بیس سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے مگر آج تک کسی نے اس دن کی مخالفت نہیں کی مگر چند سالوں سے یہ بیڑا ”امریکہ نشین“ اور ”امریکہ پلٹ“ چند عورتوں نے جب سے اٹھایا ہے تب سے نہ فقط مرد حضرات بلکہ پاکستان کی تمام باحیاء مائیں بہنیں اس دن خواتین کے نام پہ ہونے والے مارچ اور اس کی بیہودگیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔
پچھلے سال کراچی اور لاہور میں حقوق نسواں کے نام پر اس مارچ میں انتہائی پست و بیہودہ نعرے پوسٹرز اور حرکتیں ہوئیں۔ آج ہمارے ملک پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے ہونے والے خواتین مارچ میں نہ کم تنخواہوں پہ کام کرنے والی خواتین کے حقوق پہ کوئی بات ہوتی ہے۔ نہ مختلف محکموں اور دفاتر میں مردوں کی ہوس کا نشانہ بننے یا ان کے غلط رویے سے مشکلات کا شکار خواتین کے حقوق پہ کوئی بات ہوتی ہے۔نہ باپ کی وراثت سے محروم بیٹیوں کے لیے کوئی آواز اٹھتی ہے،نہ مختلف جیلوں اور وڈیروں چوہدریوں کی نجی جیل میں گلتی سڑتی مظلوم خواتین کی کوئی بات ہوتی ہے نہ شادی سے انکار پہ تیزاب سے مرجھائے ہوئے پھول سے چہروں کی بات ہوتی ہے نہ پسند سے شرعی تقاضوں کے مطابق شادی کے بعد زبردستی الگ کئے ہوئے یا موت کی نیند سلائے ہوئے جوڑوں کی کوئی بات ہوتی ہے۔ نہ اپنی ذاتی محنت و مشقت سے پنجاب میں پھل بیچنے والی ”یاسمین کنول“ نہ ٹیکسی چلانے والی ”زاہدہ کاظمی“ نہ مکینک کا کام کرنے والی ”عظمی“ نہ تندور پہ روٹی پکانے والی ”سمیرہ طارق“ نہ صبح صبح اپنی دکان پر پراٹھہ پکانے والی ”آسیہ“ کے حقوق اور انہیں مردوں کی جانب سے درپیش مشکلات کی کوئی بات ہوتی ہے۔بلکہ چند آوارہ مزاج خواتین و حضرات کی غیر فطری خواہشوں کا اظہار مختلف نعروں یا پوسٹروں اور تصویروں کے زریعے کیا جاتا ہے۔جیسے ”ہیپی طلاق“ ”نو بچہ دانی“ یا ”ہم بچہ پیدا کرنے والی مشین نہیں“ جیسے نعرے فطرت اور انسانی معاشرے کی بقاء کے خلاف ہیں۔سڑکوں پر اپنے موزے خود ڈھونڈو، اپنا کھانا خود بناؤ، جیسے نعرے کہ گویا پورا ملک انہی سے موزہ ڈھونڈنے یا کھانا پکانے کی درخواست کررہا ہو۔یا ”لو ٹھیک سے بیٹھ گئی“ جیسی نقاشی یا ”میرا جسم میری مرضی“ ”میں بدچلن میں آوارہ“ جیسے بیہودہ اور غیر ضروری نعرے جن کا عورتوں کے حقوق اور مشکلات سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔اس مارچ کی بیچاری خواتین منتظمین کی فکری سطح اتنی کم ہے کہ ''ہم ٹائر بدل سکتے ہیں '' کے نعرے لگاتی ہیں۔انہیں نہیں معلوم کہ وہ ایک نسل کو بدل سکتی ہیں ایک معاشرے کو بدل سکتی ہے۔انہیں نہیں معلوم کہ فلسطین کی ”لیلی خالد“ نے کس طرح اسرائیل سمیت دنیا کی تمام ایجنسیز کو ناکام بنا کر کئی بار اسرائیلی طیارے کو ہائی جیک کیا تھا۔انہیں نہیں معلوم کہ بڑے بڑے سائنسدانوں سے لے کر سیاستدانوں تک مجاہدین سے لے کر علماء تک کسی ایک ماں کی تربیت یافتہ تھے۔بڑے بڑے انقلاب کسی ماں کے لاڈلے اور تربیت کے مرہون منت تھے۔اگر یہ گروہ واقعی خواتین کے حقوق سے مخلص ہے تو سب سے زیادہ توہین خواتین کی وہی سرمایہ دار طبقہ اب بھی کررہا ہے۔یہ کارخانے دار اپنے مال کی تشہیر کے لیے آج بھی عورت کی نمائش اور اسے پیسوں کے لیے نچاتے ہیں۔ٹوتھ برش سے لے کر پانی کی بوتل تک چپس کے چند دانوں سے لے کر کپڑے کے تھانوں تک کے لیے عورت کو مختصر سے مختصر لباس میں نہ فقط پیش کرتے ہیں بلکہ جیسا اور جس انداز میں چاہیں نچاتے ہیں۔ غیر ضروری اشتہارات میں بھی عورت کو نیچے سے اوپر سکڑتا اورگلے سے نیچے کھسکتا نام نہاد لباس میں پیش کیا جاتا ہے۔یہ نہ فقط عورت ذات پہ ظلم ہے بلکہ ”صنف نسواں کی توہین“ بھی ہے۔اگر مظلوم عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہے تو ”عافیہ صدیقی“ کے لیے اٹھائیں جو بلا وجہ امریکہ کی جیل میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔لندن کے بھرے بازار میں حجاب کے جرم میں شہید ہونے والی ”مریم عبدالسلام“ کے لیے آواز اٹھائیں۔ یا جرمنی کی بھری عدالت میں قتل ہونے والی ”شہیدہ حجاب“ کے لیے آواز اٹھائیں۔یا اسرائیل کے اسناٸپر کا نشانہ بننے والی غزہ کی ”نرس“ اور ڈاکٹر کے لیے آواز اٹھائیں۔ برطانوی لیبر پارٹی کی اس خاتون کے لیے آواز اٹھائیں جنہیں اسرائیل کو قاتل ملک قرار دینے پر 2016ء میں مار دیا۔کویت سے تعلق رکھنے والی ”سلوای حبیب“ کے لیے اٹھائیں جنہیں صیہونیوں کی جانب سے عالم عرب اور افریقہ کے خلاف کی گئی کئی خفیہ ظالمانہ سازشوں کا کھل کر انکشاف کرنے پر اپنے گھر میں خفیہ انداز میں ”ذبح“ کیا گیا۔سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ”سامیہ میمنی“ کے لیے آواز اٹھائیں جن کی تحقیقات نے ہارٹ آپریشن کے زاویے بدل کر رکھ دیا مگر انہیں 2005ء میں قتل کر کے ان کے ایجاد کردہ آلہ اور علمی تحقیقات کے مسودے کو بھی چرا لیا گیا۔مصر سے تعلق رکھنے والی ایٹمی سائنسدان ”سمیرہ موسی“ کے لیے آواز اٹھائیں جو ایٹمی طاقت کو میڈیکل اور بجلی کی پیداوار پر صرف کرنے کی تگ و دو میں تھی مگر 1952ء میں ”امریکہ کے دورے کے دوران قتل ہوگئی“یا پھر ملکی سطح پر قصور کی زینب سے لے کر اب تک بےدردی سے مسلے گئے ننھے پھولوں کے لیے آواز اٹھائیں۔کشمیر اور فلسطین کی جیلوں میں قید مظلوم خواتین کے لیے آواز اٹھائیں۔یا پھر حالیہ فسادات میں بھارت کے اندر بےحرمتی اور زندہ جلائی گئی مظلوم خواتین کے لیے آواز اٹھائیں وگرنہ عورتوں کے حقوق کے نام پہ تماشہ لگا کر عورتوں کے حقوق کے لیے اپنے طور پر کوشش کرنے والوں کو شرمندہ نہ کریں۔بہ الفاظ دیگر آپ لوگ خواتین کے حقوق اور آزادی کے نام پر انہیں بدنام اور مزید قیدی مت بنائیں۔ اپنے نعرے اپنی آزادی اپنا جسم خود ہی سنبھال کر رکھیں اس معاشرے اور صنف نسواں پہ یہی ایک احسان کریں۔۔شکریہ
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔