۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
مولانا محمد جواد حبیب 

حوزہ/ بھگت سنگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم آل لداخ اسٹیوڈینس سے مولانا محمد جواد حبیب کا "اسلامی اور مغربی تناظر میں عورت،زندگی اور آزادی کا تقابلی جائزہ‘‘  کے موضوع پر خطاب۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بھگت سنگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم آل لداخ اسٹیوڈینس(All Ladakh students DUB Punjab) کی جانب سے یوم خواتین کے موقع پر ایک عالیشان وارکشاب کو انعقاد کیا گیا جسمیں خطہ لداخ اور کشمیر کے طلاب و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی اس ورکشاب میں طلاب اور طالبات نے اپنی تقاریر اور اشعار کے حضرت فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا اس کے بعد مولانا جواد حبیب نے صدارتی تقریر میں ’’ اسلامی اور مغربی تناظر میں عورت،زندگی اور آزادی کا تقابلی جائزہ‘‘ کے موضوع پر جوانوں سے خطاب کیا ۔

جواد حبیب نےکہا مغربی جدیدمکاتب فکر نے جو مظالم صنف نسواں پر ڈہائی ہے اتنی مظالم تاریخ میں کسی ظالم اور جابر حکمران نے بھی نہیں کی ہے آج مغرب میں موجود خواتین دنیا کے سب سے لاچار، مظلوم ، اور کمرزو خواتین ہیں ان پر ہوس پرست ، نفس پرست اور شہوت کے پورجاریوں کی جانب سے کئے جانے والی حیوانیت ، خشونت ،زیادتی ،تشدد، تجاوز،تعدی ،ظلم و ستم کو بیان کرنے سے بھی انسان کی زبان لرزتی ہے اور یہ سارے مظالم خواتین پر ’’حقوق نسواں‘‘(women rights) اور ’’خواتین کی آزادی‘‘(women freedom) کی نام سے کیا جارہا ہے ۔یورپ اور امریکہ میں موجود حاکم نظام وہاں کی خواتین کو مفسد،شہوت پرست انسان کے لئے آلہ کار بنے کی سفارش کرتا ہے اور اسی کو عورت کی ٓزادی سے سمجھتا ہے وہی کام جو دور جاہلیت میں ہورہا تھا آج کے جدیدجاہلیت میں اسے فیشن کی نام سے کیاجارہا ہے دور جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے آج جدید دور جاہلیت میں عورتوں کے اخلاقی اور انسانی حقوق کو دفن کیا جارہا ہے اور ان کو صرف شہوت پرست انسان کا غلام بنایا جارہا ہے قرآن کی یہ آیت جسمیں خداوند فرماتا ہے ظھرالفساد فی البرو البحر اب فسادات خشکی و تری پر حاکم ہوچکی ہے یعنی ہرطرف گناہ ہی گنا ہ نظر آرہا ہے اور مغربی ثقافت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہ ، فحاشی ، عریانیت ،بے حیایی ، بے غیرتی کو عام کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے مختلف سنٹرز وجود میں لاچکے ہیں جو پوری دنیا میں جہاں بھی موقع ملے انسان کو گمراہی کی جانب لے جانے میں کوشاں ہیں ۔

یورب کی ثقافت کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ثقافت ہیومانیزم ، سکولاریزم ، لبرالیزم ، میڑیالزم اور نہلی ازم پر مشتمل ہے وہ انسان کو ان اصول پر توالتے ہیں جس کے بنا پریہ ثقافت انسان کو خدا ، دین ،معنویات اور اخلاقیات سے بے نیاز بناتی ہے اور انکی ثقافت میں خواتین کی کوئی ویلو نہیں ہے؛

۱۔ مغربی ثقافت ،عورت کو بے حجاب، بے پردہ ،بی حیا ،بے غیرت،نامحرم مردوں کے جنسی خواہشات کی تسکین قرار دیتی ہے اور اسی کو عورت کی آزادی شمار کرتی ہے۔اسکی نظر میں عورت،عریانت، گناہ ،فحاشی اور شہوت کے لئے آلہ کار ہے اسکا کوئی مقام و منزلت نہیں ہے ۔
۲۔ مغربی ثقافت میں عقل انسانی اور دینی احکامات سے رو گردانی،اور فتنہ و فساد اخلاقی، خواہشات اور جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہونے کو آزادی سے یاد کیا جاتا ہے ۔
۳۔ اس ثقافت میں اگر عورت یا خواتین خود کو نمایاں کرنا چاہے تو انکوعریانیت،فحاشی کا سہارا لینا ہوگا ۔زینت ،سجاکر،میک اب کرکے نامحرم اور بے حیا مردوں کے جنسی تسکین کا آلہ کار بنا ہوگا تب جاکر وہ نمایاں ہوسکتی ہیں۔ جو درحقیقت عورت کے حق میں سب سے بڑا ظلم ہے ۔
۴۔ مغربی مادہ پرست،لبرل نظام نے جو ظلم و ستم عورت پر کی تاریخ میں کسی اور تمدن نے نہیں کی ہے اس ثقافت نے ہر میدان میں عورت کو ظلم کاشانہ بنایا ہے۔تعلیم ، حقوق، تحقیقات، ادیبات،مالکیت میں ان کو سالوں سال سے محروم رکھا۔
۵۔ قرون وسطی کے بعد سے ۲۰ صدی کے اوائل تک پورب میں عورتوں کو دوسرا درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے اور عورت کو اپنی دولت پر کوئی مالکیت نہیں تھی بلکہ اسکا،مالک شویر،باپ، یا بھائی ہوتا تھا۔
۶۔۱۹ صدی کے اوائل میں جب پورب میں کارخانے بنانے گئے و مزدوروں کی کمی ہوئی اس وقت حقوق نسواں(women rights) ،آزادی نسواں (women freedom) کا نعرابلند کیاگیا جس کے ذریعے کچھ مادہ پرست ان عورتوں کو گھر سے نکال کرکارخانوں میں مزدور بنانے میں کامیاب ہوگے اور مرد و زن کی اختلاط کا مواقع مل گیا جسکی وجہ سے عورتوں حیااور عفت ختم ہونے لگی۔
۷۔ انگلینڈ میں ۱۹۴۷ تک عورت کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی اگر کوئی پڑھتی تھی تو اس کو سرٹیفکیٹ نہیں دیاجاتاتھا۔
۸۔ ۲۰ صدی کے اوائل تک یورپ میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق نہ تھا۔
۹۔ ۲۰ صدی کے اوائل تک یورپ میں عورت اپنے مال و دولت کے مالک نہیں بن سکتی تھی اس پر حق والد،بھائی اور شوہر کا ہوتا تھا۔
۱۰۔ ۱۰۰ سال پہلے یورپ میں عورتوں مردوں کے غلام تھی۔ان کو کسی بھی قسم کی آزادی نہیں تھی۔
۱۱۔ یورپ میں عورت کشی عام تھی اور اب بھی ہے آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ عورتوں کا قتل یورپ میں ہوتا ہے اور وہ عورتیں جو شوہر کے ہاتھ سے مار کھاتی ہیں یا وہ بیٹیاں جو باپ کے ہاتھوں سے مار کھاتی ہیں انکی تعداد بہت زیادہ ہے آج بھی یورپ میں ۳۰ درصد آبادی ایسے مظلوم خواتین کی ہے ۔
۱۱۔ صہیونیزم نے ۱۸۰ سال پہلے سے عورتوں کو بے حیائی اور فحاشی کے میدان میں لانے کیلئے نقشہ بنایاتھا جسکا شکار یورپ اور امریکہ کے مظلوم خواتین ہوئیں۔ یورپ کے خود تحقیقی اداروں کے مطابق سب سے زیادہ ظلم و ستم،وحشت،خشونت، تجاوز،زبردستی، جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے والی عورتیں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔

جیمی کارٹر اپنی کتاب میں یوں لکھتاہے۔ ہر سال امریکہ میں ایک لکھ بچیوں کو غلامی کے طور پر بیچاجاتاہے۔ امریکہ یورب میں بہت سے ایسے سنٹرز ہیں جھاں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے ان کے ساتھ تجاوز اورزبردستی کیاجاتاہے۔مغربی میڈیا معمولی سے معمولی چیزوں کی فروخت کے لئے عورتوں کے تصویر کا استعمال کرتی ہے ۔

جب عورتوں کے ساتھ اس طرح کےزیادتی ، ظلم و ستم ہو تو لازم ہے اس معاشرے میں اور سوسائٹی میں حقوق نسواں (women right)، آزادی نسواں (women freedom) عورتوں کی تحفظ اور امنیت، کی بات کی جائے اور وہاں کے مظلوم خواتین کو اس درندگی سے نجات دیا جائے۔

اسلام میں عورت کا مقام

اسلام ’’خدا کااِس جہاں میں آخری پیغام ہے ‘‘ یہ دنیا میں کامیابی وکامرانی کی کلید اور آخرت میں سرخ روئی کا واحد ذریعہ ہے، اسلام در حقیقت نام ہے ان نظریات واحکامات کے مجموعے کا جنھیں خالقِ کائنات نے انسانو ں کی رہبری کے لیے، اپنی جانب سے نازل فرمایا ہے۔

اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

عورت اس کائنات کی ایک عظیم ہستی ہے،اور کیوں کہ یہ بھی بنی نوع اِنسان میں شامل ہے ؛ اس لیے وہ بھی مرد کی طرح اسلام کو اپنانے، دل وجان سے اسے تسلیم کرنے، اس کے عقائد ونظریات کو من وعن قبول کرنے اور احکام و اوامر کو بجالانے کی پابند اور مکلف ہے۔

اسلام ایک عورت کو بیٹی ،بہن ، بیوی ، ماں ، خالہ ، بھوبھی کی صورت میں ان کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے انکے حقوق کو بھی بیان کی گیا ہے۔

ایک عورت اگراس دنیا میں کامیابی وکامرانی، عزت وعافیت، قلبی وروحانی سکون کی آر زو مند ہے، اور وہ موت کی سختیوں، برزخ کی ہولناکیوں، قیامت کی ہوش رُبا پریشانیوں،اور جہنم کی تباہ کاریوں سے’’ نجات ‘‘کے لیے سنجیدہ اور فکر مند ہے تو اسے اسلامی شریعت کی پاس داری بہر حال کرنی ہوگی اور خود کو احکامِ الٰہیہ کاپابند بنانا ہوگا؛خواہ وہ ایمانیات وعقاید سے تعلق رکھتے ہوں یا عبادات ومعاشرت سے، اور خواہ وہ اس کے مزاج ورِواج کے موافق ہوں یا مخالف۔اور آج مسلمان خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے احکامات کے پابندی کرتے ہوئے یورپ کے مظلوم خواتین کو نجات دیں۔

پروگرام کے بعد طلاب و طالبات کی جانبے سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب بھی پیش کیا گیا یہ ورکشاب ۳ گھنٹوں پر مشتمل تھی جس جوانوں کی جانب سے بہت استقبال کی گیا ۔

مغربی جدید مکاتب فکر نے جو مظالم صنف نسواں پر کئے ہیں اتنے مظالم تاریخ میں کسی نے بھی نہیں کئے، مولانا محمد جواد حبیب 



لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .