۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
تصاویر/ بیت قدیمی امام خمینی(ره) در نجف اشرف

حوزہ/ امام خمینی رہ  ایک معاشرے کی فساد و صلاح کو عورتوں کے ایک گروہ کی فساد و صلاح مانتے ہیں چونکہ معاشرے کی بنیاد و اساس وہ عورتیں  ہیں جو  اپنی گود میں اولاد کی تربیت کی حامل  ہوتی ہیں۔

تحریر: ثانیہ زینب مجتہدی

حوزہ نیوز ایجنسی کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے پہلے اس موضوع کے مفہوم کی شناخت ضروری ہے۔ثقافت ایک ایسا لفظ ہے جس کا مفہوم وسیع ہے ماہرین سماجیات نے ثقافت کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
گسٹوف کلائم ثقافت کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
”رسوم و روایات، امن و جنگ کے زمانے میں انفرادی اور اجتماعی رویے دوسروں سے اکتساب کیے ہوئے طریقہ ہائے کار، سائنس، مذہب اور فنون کا وہ مجموعہ ثقافت کہلاتا ہے جو نہ صرف ماضی کا ورثہ ہے بلکہ مستقبل کے لیے تجربہ بھی ہے“
ای۔ بی۔ ٹیلر ثقافت کی تعریف اس طرح کرتا ہے:
”ثقافت سے مراد وہ علم، فن، اخلاقیات، قانون، رسوم و رواج، عادات، خصلتیں اور صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جو کوئی اس حیثیت سے حاصل کر سکتا ہے کہ وہ معاشرہ کا ایک رکن ہے“
اسی طرح ثقافت کی تعریف میں رابرٹ ایڈفلیڈر رقمطراز ہے:
”ثقافت انسانی گروہ کے علوم اور خود ساختہ فنون کا ایک ایسا متوازن نظام ہے جو باقاعدگی سے کسی معاشرہ میں جاری و ساری ہے“۔
اسلامی نقطہء نظر سے ثقافت وہ سارے اقدار ،اخلاق اور احکام جو انسان کی نجی اور اجتماعی زندگی کا جز ہے اور جس کے زریعے انسان کی شناخت ہوتی ہے جیسا کہ قرآن میں اشارہ ہواہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
اور ثقافتی یلغار یا سافٹ وارسے مراد یہ نہیں کہ کسی ثقافت سے استفادہ کیاجائے بلکہ اسلام تبادلہ ثقافت کی اجازت دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے کہ:
فَبَشِّرْ عِبَادِی * الَّذِینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِکَ الَّذِینَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِکَ هُمْ أُولُوا الألْبَابِ.
"میرے بندوں کو خوشخبری دیں کہ جو باتوں کو سنتے ہیں پھر اس میں سے بہترین کو انتخاب کرتا ہے یہی لوگ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی عقلمندوں میں سے ہیں"

مختلف ثقافتوں کا موازنہ کر کے وہاں کے اچھائیوں کو جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے کو اپنانے اور اس کے برعکس کو ترک کرنا اسلام کا طریقہ ہے۔طلوع اسلام کے بعد عربی ثقافت سے اسلام نے ان چیزوں کو رد نہیں کیا جو اسلام سے تعارض نہیں رکھتاتھا بلکہ اسلام نے ان کی تائید کی جیسے طوافِ حج ،صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگانا وغیرہ ۔
ثقافتی یلغار سے مراد کسی کے ثقافت کے اندر بے جا دخل اندازی اور اس میں اپنی ثقافت کو وارد کرنا ، پھر دیرے دیرےثقافتی پہچان کو ان سے چھین کر اس کی حیثیت کو ختم کرنا ہے ، دنیا کا قانون رہا ہے کہ جب بھی کوئی قوم کسی اور قوم کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے تو اس کی ثقافتی پہچان کو چھین لیتی ہے جب وہ قوم اپنی شناخت کو کھو دیتی ہے تو بلا شک و تردد دوسری قوم کی غلام بن جاتی ہے۔لہذا دوسرے اثاثوں کی طرح ہر قوم کو اپنی ثقافت کی حفاظت کرنی چاہیے جو اس کے بارے میں لاپرواہی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے وہ بہت جلد مغلوب ہو جاتی ہے .یعنی ثقافت وہ حساس ترین چیز ہے جس کے ذریعے آسانی سے قوموں کو لوٹا جا سکتا ہے ۔خاص کر مغرب کے ثقافتی یلغار کا ہدف اسلامی مملکت سے آئین اسلامی میں بگاڑ پیدا کرنا اور مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کر کے مغرب کی طرف مائل کرنا ہے۔

علامہ اقبال مغربی تہذیب پر شدید الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے ان کی تہذیب کو گندے انڈے سے تشبیہ دیتے اور کہا کرتے تھے کہ ان کو اس معاشرے سے نکال باہر کرنا چاہیے کیونکہ مغربی تہذیب اس معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثقافت پہچان ہوتی ہے اور جو ثقافت چھوڑ دیتا ہے دراصل اس کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔
اسلام کے قوانین جو ایک انسان کو معراج تک جانے کاہنرسکھاتے ہیں، خود شناسی کے راستے سے خدا شناسی کا سفر طے کراتے ہیں اور اپنی ذات کو رب تعالیٰ کی ذات کے آگے فنا کر دینا سکھاتے ہیں

اسلامی ثقافت میّں عورت کو بلند مقام حاصل ہے۔ اسلام میں عورت کی حیثیت کی کمترین مثال سونے کی ہے جس طرح دنیا کی قیمتی ترین شے سونا کہ جس کے حوالے سے اس کا مالک حساس ہوتا ہے۔ اسی طرح اسلام عورتوں کے حوالے سے حساس ہے کہ اگر یہ گوہر ہستی اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ظاہر کرے تو ممکن ہے۔ مغرب پرست درندوں کا لقمہ بن جائے اور اس حسن کائنات کو پامال کرے امریکہ اور مغربی طاقتیں عورت کی اسی حیثیت کو ختم کرنے کے لیےایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ چند کم ظرفوں کے علاوہ بطور کامل عورتوں کو دھوکا دے کر مغرب زدگی کی حراست میں لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔۔

کیوں !
اس لئے کہ ہزاروں مخدرات اسلام نے صفحہ ہستی میں اپنے کردار کا نقش ایسا گاڑا کہ جن کو قیامت تک کوئی طاقت نہ مٹا سکے گی اور جس کے زیر اثر سے آج تک خواتین استعماری طاقتوں کے خلاف برسر پیکر ہیں۔۔ مغرب زدہ افراد کی ہر سازش ، اسلام کے مطیع عورتوں کے ہاتھوں نابودی کا لقمہ بنی ہے۔ اب مغرب کے پرستاروں کا ہدف اصلی عورتوں کو غیر محسوس انداز سے مشتعل اور منحرف کرنا ہے اور وہ مختلف ذرائع سے فعال ہیں-

1۔عفت و حیا کو ماڈرنزم کے زریعے ختم کرنا۔
سوشل میڈیا پر فحاشی کوعام کرنا. ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ شرم و حیا گھر کے حریم کے اندر بھی محفوظ تھا بیٹی و بہن باپ اور بھائی کے سامنے مکمل حجاب کے ساتھ ھوتی تھی ان کے سامنے دوپٹہ اتارنے سے حیا محسوس کرتی تھی یہاں تک کہ عورت کا عورت کے سامنے بغیر دوپٹے کے رہنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور یہ عورت کی وقار و حسن سلیقے کے زمرے میں شمار ہوتا تھا لیکن آج مغربی لٹیروں نے اس وقار کو لوٹ لیا ہے جس کے نتیجے میں عورتوں کا عورتوں سے حیا تو دور کی بات ہے بالکہ نہ بیٹی کو باپ کا لحاظ ہوتا ہےنہ ہی بہن کو بھائی کا۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جوبھی گھرانہ اسلامی اقدار کی رعایت کرتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ ماڈرنزم کا دور ہے تم کس زمانے میں جی رہےہو ؟ اور ایسے گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے . اور جو اپنے بالوں کو کھول کر بے حیائی کے لباس زیب تن کر کے غیر مردوں کے آگے نمائش کے لیے جاتی ہے ان کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔
امام خمینی رہ مغرب پرست عورتوں کے بارے میں معتقد ہیں کہ ان عورتوں کی حیثیت ایک گڑیا کی جتنی ہے جس طرح ایک عروسک مختلف ہاتھوں کا کھلونا اور کوئی اس سے جس طرح چاہے کھیل سکتا ہے۔
اسلام کی حیات بخش دستور شیطان کی پیروی سے انکار کرتا ہے اور حیا اور وقار کی طرف دعوت دیتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
پیکر عفت و حیا حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اسلام کی پیروی میں بے مثال قربانی دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام دین قدامت نہیں ہے۔
بلکہ اسلام ہر دور کے نسل کے لئے تازہ جدید اور آبیاری حیات کی مانند ہے اسلام مذہب بقا ہے اس کے پیروکاروں کے لئے ابدی موت نہیں ہے ۔ حجاب کو قدامت پرستی کے نام دینے والے درحقیقت احساس کمتری کا شکار ہے یا اس بات کا ڈر ہے کہ نسل نو میں کوئی ثانی زینب پیدا نہ ہو جائے کہ آج کے یزید کو تخت سمیت منہ کے بل الٹا نہ دے۔
امام خمینی اسلام کو دین قدیم کہنے والوں کو کچھ اس طرح جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ؛ بعید نہیں ہے کہ ایسے لوگوں نے مغربی رنگ پکڑ لیا و غیر وں کی ثقافت اس پر نفوس کر گئے ہوں، فرماتے ہیں اسلام، جہاں بینی و انسان شناسی کا دین ہے کہ جو بہت سے مفاہیم پر مشتمل ہے۔از جملہ انفرادی واجتماعی تمام امور میں توحیدی تصور کا حاکم ہونا ، اعتقادات اصول و فروع کا بنیادی کردار واثر۔

2 ۔آزادی کے نام پر بے بند و باری؛
مغرب آزادی کے نام سے پروپیگنڈوں کے ذریعے بے بند وباری کی ترویج کرتا ہے ایسی چیزوں کو استعمال میں لاتا ہے کہ جس میں تفکر و تدبر کی ضرورت نہیں ہوتی مثلاً یہ کہ وومن رائیٹس یا عورتوں کی آزادی کے نعروں کے ذریعے ان کی عزت و شرافت کے مقام سے نیچے کھینچ کر فاسد الاخلاق کر دیتا ہے۔ انھوں نے اسلام کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ اسلام عورتوں کو گھروں میں بند کر دینے کا قائل ہے۔ جبکہ اسلام نہ صرف عورتوں کی آزادی کے موافق ہے۔ بلکہ خود عورتوں کی آزادی کی بنیاد رکھنے والا ہے۔

3 ۔لباس ، اشیاء خوردونوش ؛
وہ مختلف قسم کے کھانے پینے کی چیزیں جن کی ضرورت نہیں ہے ان کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ عورتوں،بچوں اور جوان نسل آذادی کو ان میں پھنسا کر دین اور اصلی ہدف زندگی سے کوسوں دور لے جائے اور ان کی زندگی انہی کے لیے عذاب بنادے اس میں کارفرما عناصر ایسی چیزیں ہیں جن کو لوگ آسانی سے قبول کر لیتے ہیں مثلاً لباس کو تنگ، چھوٹا اور، باریک کر کے خوبصورتی کی نمائش کرنا، اور کہنا کہ پردہ بھی، فیشن بھی۔ حالانکہ اسلام ایسے لباس کو لباس نہیں کہتا جس سے بدن کی اندام نمایاں ہو۔ اسلام بہترین لباس، تقویٰ کے لباس کو قرار دیتا ہے ۔
یا بَنی‏ آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَیْکُمْ لِباساً یُواری سَوْآتِکُمْ وَ ریشاً وَ لِباسُ التَّقْوى‏ ذلِکَ خَیْرٌ ذلِکَ مِنْ آیاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُون»؛
مخلتف تزئین و آرائش کی چیزوں کے ذریعے عورتوں کے وقار کی خریداری ہو رہی ہے جبکہ اسلام ان چیزوں سے اگر منع کر رہاہےتو خود انسان کے مفاد کے لیے ہے۔ آج یہ دریافت ہواہے کہ ایک طرف انہی مختلف بیہودہ آرائشی مواد کے باعث کینسر اور بہت سی بیماریاں ایجاد ہورہی ہیں ۔ تو دوسری طرف سوشل میڈیا کے غلیظ ڈراموں کے ذریعے جوان بچے بچیوں کے مہار ان کے والدین کے ہاتھوں سے نکلی جارہی ہیں خود سری عام ہوگئی ہیں۔اس کے علاوہ جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے ۔اور معاشرتی برائیاں جیسے قتل، زنا ، اغواء، خودکشی جیسے سینکڑوں برائیوں نے معاشرے کو ناپاک اور نجس کردیا ہے۔
ایسے میں راہ حل صرف اسلام تعلیمات میں دکھائی دیتا ہے،
اسلام عورتوں کو انسانی معاشرہ کی حساس ترین بنیاد قرار دیتا ہے کہ اگر ایک عورت خود سازی کرے اور اپنے مقام کو ارتقا کی طرف لے جائے تو وہ اپنے ساتھ ایک معاشرے کو بھی رشد کی طرف لے جاسکتی ہے۔
امام خمینی حضرت فاطمہ زھرا سلام علیہا کہ جو تمام صفات و خصوصیات انسان کامل سے آراستہ ہیں۔ کو شائستہ پیروی قرار دیتے ہیں ۔اور معتقد ہیں "کہ اگر عورتیں اس عظیم خاتون کہ جو تمام جلوہ انسانی رکھتی ہے۔کی پیروی کریں تو معاشرہ اس طرح رشد و ترقی کرے گا .‘‘
امام خمینی مزید فرماتے ہیں کہ:خاندان معاشرہ کا پہلا بیج ہوتا ہے کہ جس میں انسان کی تربیت ہوتی ہے اور بچوں کی تربیت کی سنگین مسئولیت ماؤں کے اوپر ہے۔ ماں کے اخلاق اور اعمال بچوں پر بے پناہ اثر رکھتا ہے۔اگر دامن مادر طاہر ، پاکیزہ و مہذب ہو تو شروع سے اچھا اخلاق تہذیب النفس اور عمل خوب کے ساتھ رشد کرتا ہے اگر ایک بچہ اچھے تربیت کا حامل ہو تو ایک ملت کی سعادت کاباعث بنتا ہے اسی طرح اگر ایک بچہ اس کے بر عکس بڑا ہو جائے تو وہ معاشرہ میں فساد اوربہت سے جرائم کا مرتکب ہو سکتا ہے۔پس ماؤں کا شریف مشغلہ شائستہ تعبیر ہے:ماں کی عطوفت اور محبت اللہ کی رحمت کا تجسم ہے۔

امام خمینی رہ ایک معاشرے کی فساد و صلاح کو عورتوں کے ایک گروہ کی فساد و صلاح مانتے ہیں چونکہ معاشرے کی بنیاد و اساس وہ عورتیں ہیں جو اپنی گود میں اولاد کی تربیت کی حامل ہوتی ہیں۔

عورتوں کی قابلیتیں،صلاحیتیں معاشرے کی علمی ،اخلاقی ،تربیتی، سیاسی ،ثقافتی، دفاعی اور نظامی میدان میں بے پناہ نقش چھوڑتی ہیں, سیاست کے میدان میں عورتوں کا کردار مردوں سے زیادہ ہے کیونکہ وہ خود بھی بہت سی مسئولیت رکھتی ہیں اور اپنے مردوں کو بھی فعالیت کے لئے تشویق کرتی ہیں۔

3 ۔اور علمی ثقافتی میدان میں عورتوں کے فعالیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امام خمینی فرماتے ہیں کہ " ایران کی عورتوں کا اسلامی تحریک کی کامیابی میں بہت بڑا حصہ ہے ، اور یہ کامیابی انہی کی ایثار و قربانی کی مرہون منت ہے ۔
پس عورت معاشرے کے حسن کا معمار ہے۔خدانے کائنات میں اپنی سب سے بہترین مخلوق انسان کو خلق کرنے کے بعد خود اپنی خلقت پہ ناز کرتے ہوئے فرمایا کہ: "واللہ احسن الخالقین" کے امور کے جمال و زیبائی کی ذمہ داری عورتوں کے سپرد کیا ہے ۔عورتوں کو چاہیے کہ اس عظیم مسئولیت کو وفا کرے تاکہ بارگاہ خدا میں اعلیٰ ترین مقام اور رتبہ حاصل کرسکیں اور اسلام کی تہذیب کے تحفظ اور بقا کی ضامن بنیں اور اس مقصد کے لیے امام خمینی کی تعلیمات کا مطالعہ ناگریز ہے جنھوں نے اپنی لازوال جدوجہد اور انتھک محنت و کوشش کے ذریعے اسلامی تہذیب کو عصر حاضر میں دوبارہ زندگی عطا کی اور مغرب کے ملحدانہ ثقافت اور تہذیب کے آگے ایسا بند باندھا جس کے نتیجے میں ایک بار پھر اسلام کا بول بالا ہوا اور مغرب کی آنکھوں میں سوئی چبھو دی.

امام خمینی رہ معتقد ہے کہ کسی قوم کی تمام خوش بختی اور بدبختی کا نقطہء آغاز اس پر حاکم ثقافت ہے۔ امام رہ اسلامی ثقافت کی عظمت رفتہ کو لوٹانے کا واحد راستہ نسل نو کی تربیت کو سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایرانی قوم کے پر شکوہ انقلاب کو یقینی بنانے کے لیے عورتوں اور نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .