۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
شهیده بنت الهدی صدر

حوزہ/عورت کا موضوع مغرب کے ساتھ اسلامی تہذیب کے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کے نقصانات، فوائد، حقوق اور وظائف کے حوالے سے اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں۔ اسلام عورت کو گھر اور معاشرے دونوں کے لئے زندہ رہنا سکھاتا ہے۔ گھر عورت کا آشیانہ ہے اور معاشرہ عورت کی تربیت گاہ ہے۔ عورت معاشرہ سے حقوق لیتی ہے اور اپنا حقوق ادا کرتی بھی ہے۔

سید مشتاق عبد مناف الحلو
ترجمہ و تلخیص: مریم حسن

حوزہ نیوز ایجنسی

مقدمہ:
عورت کا موضوع مغرب کے ساتھ اسلامی تہذیب کے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کے نقصانات، فوائد، حقوق اور وظائف کے حوالے سے اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں۔ اسلام عورت کو گھراورمعاشرے دونوں کے لئے زندہ رہنا سکھاتا ہے۔ گھر عورت کا آشیانہ ہے اور معاشرہ عورت کی تربیت گاہ ہے۔ عورت معاشرہ سے حقوق لیتی ہے اور اپنا حقوق ادا کرتی بھی ہے۔
اس تحریر میں شہیدہ بنت الہدیٰ کی تالیفات کے مجموعوں سے اسلام کا عورتوں کے بارے میں نظریہ کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام میں ان کا حقیقی مقام کیا ہے ؟اور اسلام کس نظریے سے دیکھتا ہے؟ کیونکہ بنت الہدیٰ اسلام کے نظریاتی مسائل سے واقفیت کے ساتھ وہ خواتین سے متعلق ثقافتی شعبوں میں اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے مسائل سے بخوبی واقف رہی ہیں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔یہ تحریر مغرب اور اسلام کے درمیان خواتین کا تقابلی جائزہ بھی نہیں بلکہ یہ اسلامی معاشرے کی ایک مستقل بحث ہے۔اس تحریرمیں، اسلام میں عورت کی جامع تعریف ،کچھ سوالوں کے جواب کے طور پردی گئی ہیں وہ سوالات یہ ہیں۔
پوری تاریخ میں مختلف تہذیبوں میں عورت کا کیا مقام رہا ہے۔ اسلام کے لحاظ سے ان کامقام ان سے مختلف ہے؟
اسلام عورت کو ایک بیٹی، بیوی اور ماں کے طور پر کس نظر سےدیکھتا ہے؟
اسلام میں خواتین کے کیا حقوق ہے ؟
معاشرہ میں خواتین کا مقام اور خواتین کے شغل کے حوالے سے کیا نظریہ رکھتا ہے؟؟
گھر میں عورت کاکردار اسلام کی نظر میں کیا ہے؟
اسلام میں عورت کے لئے حق ملکیت ہے؟
ارث میں عورت کا حق آدھا کیوں ہےَ؟
اسلام نے عورت کے لئے حجاب کیوں لازم قرار دیا ہے۔؟
اسلام کی نظر میں عورت گناہ کا سبب یا مرد کی خواہشات کی تکمیل کے لئے خلق ہواہے یا ان کو اپنی اولاد پر کوئی حق نہیں؟
مسلمان عورت کی پسماندگی کی وجہ سے اسلامی معاشرہ زوال سے روبرو ہے۔ اس حالت سے نجات کا راستہ کیا ہے۔؟
یہ مقالہ دین اسلام کے کامل ہونے کو بیان کرتا ہے کہ ان سوالوں کے جواب کا اسلام کے پاس نہ ہونا محال ہے۔
اس مقالہ کا مفروضہ یہ ہے کہ اسلام میں فرد کی حیثیت کے تعین میں جنس کا کوئی عمل دخل نہیں نہیں ،اور انسان کو “خلیفۃ اللہ” کا درجہ حاصل ہے اور اس مقام میں مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے کے شریک ہیں۔ اس تحریر میں مستقل بحث اسلام کا نکتہ نظر اور متغیر بحث عورت کی تعریف ہے۔
1.پہلاحصہ: تاریخ میں عورت:
قدیم یونانی تاریخ میں عورت پر ہونے والا ظلم اس قدر واضح ہے کہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے چند نکات کی یاد آوری کی جاتی ہیں۔
الف )عورت یونانی تمدن میں
یونان کی تاریخ جس کو ماضی کی خوشحال ترین تاریخ و تمدن میں شمار کیا جاتا تھا یونانیوں نے کوشش تھی کہ عورت جس حال میں ہیں اس سے نکال کر ان کومقام دی جائے ۔مگر ان کا مقام دینا صرف جسمانی ساخت اور خوبصورتی کی بنا پر تھا اور عورتوں کی مختلف مجسمہ سازی اور تصویریں بنانے میں استعمال کیا جاتااور فقط نفسانی خواہشات ، جسمانی ہوس کا ذریعہ بنایا جاتا۔اس حساب سے انہوں نے عورت کو مقام دیا۔یوں خواتین کو ایک فنکاری کے موضوع میں میں تبدیل کردیا ۔ اس کے حسن کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دئیے تھے کہ مادیت میں غرق ہو گئے آخر میں ان کی تمدن و ثقافت زوال پذیر ہوگئی۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں یونانی عورتوں کا کا ذکر نہیں ملتا سوائے کچھ تصویر کے اثرات جسے کچھ مصوروں نے تراشے تھے۔
ب) روم کی تہذیب میں عورت
روم کی تہذیب میں عورت کو مردوں کے ہاتھوں کا کھلونا سمجھا جاتا تھا اور اپنی مرضی کے مطابق سلوک کرتے تھے جب ان کوترقی مل گئی تو عورتوں کی تعریف اور تمجیدکی گئی ۔فاسق عورتوں کو حکومت کے معاملات پر قابض کر دیا پھر شہوتوں میں غرق ہوگئےاور انکی تہذیب ثقافت تباہ ہوگئی۔
ج)عورت عیسائیوں کی تاریخ میں
مسیحیوں کا اپنی طولانی تاریخ میں عورت کے بارے میں منفی رویہ رہا ہے قرون وسطی کے بعد انہوں نے خواتین کے مقام کو بلند کرنا چاہا۔ عورتوں نے مردوں کے مقابل اپنا مقام پالیا مگر ایک مستقل طور پر نہیں بلکہ ایک تفریح کے عنوان سے اجازت دی گئی کہ ظاہری طور پر قانون گزاری میں مرد اور عورت برابر ہے لیکن ایک بار پھر عورت کے اپنی تمام شعبوں میں حتی کہ ارث وجائیداد میں بھی مردوں کا تسلط ان پر باقی رہی اور بغیر کسی قید و شرط کے ان کی عزت و وقار کو چھین لیا گیااورعورت کو معاشرے میں میں ایک کم قیمت چیز کے طور پر پیش کیا گیا۔
د) صدر اسلام میں عورتوں کی حیثیت
جب عورتوں کی کردار کا خلاصہ مردوں کی تسکین کے طور پر متعارف کردیا گیا تو جزیرۃ عرب میں ایک نئے مذہب کا ظہور ہوا جس کا خواتین کے بارے میں بالکل الگ نظریہ تھا اس وقت کے خواتین نے اسلامی فکر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ان میں سے دو کرداروں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
1) اسلامی فکر کے فروغ میں عورت کا کردار
تاریخ کے صفحات میں بہت سی ایسی عورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے مردوں سے پہلے اسلام قبول کیا ،فکر و اندیشہ اور تعقل کے ساتھ احکام اسلامی کو حاصل کیا۔حتی احادیث بھی لکھی ان میں سے اسما بنت عمیس الخثعمیہ،ام اسحاق بنت سلیمان،اسما بنت یزید ،السکن الانصاریہ اور دیگر کچھ شخصیات شامل ہیں یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے زمانے میں مبلغین اور روایان احادیث میں سے تھی۔یعنی عورتوں کے علم حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔اسلام کے دشمن ہی ہیں جنہوں نے اپنی حرص اور خواہش کے حصول کے لئے عورتوں کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی۔ اسلام کے ان ابتدائی مثالوں کو زندہ کرنے کے لیے عورتوں کے لئے ضروری ہےوہ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھیں۔
2) مسلمان عورت دین کا علمبردار
مسلمان خواتین نے ثقافتی میدانوں کے علاوہ عملی میدان میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ اسلام کا پرچم بلند کیا حتی کہ میدان جہاد میں بھی نمودار ہوئی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ اسلام نے جس انسانیت کا اعتراف عورتوں کے لیے کیا اس کی بنیاد پر وہ اسلام کے لیے جد و جہد کرتی تھیں اپنے مذہب کی دفاع کرنے کا ان کو حق دیا ہوا تھا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں عورتوں نے صبر، استقامت،ایثار اوربہادری دکھائی جو تمام کے تمام اہل بیت سےنہیں تھیں بلکہ معاشرے کے معمولی افراد میں سے تھے ان میں سے ایک حنسا بنت عمر بن الثرید ہیں جنھوں نے اپنے دو بھائیوں کو کھویا ان کی مدح سرائی کی لیکن جب اپنے چار فرزند میدان جنگ میں شہید ہوئے تو کہا! خدایا تیرا شکر گزار ہوں کہ میرے فرزند شہید ہوئے اور مجھے عزت بخشی،میں خدا سے دعا کرتی ہوں ان کے ساتھ اپنے رحمت کے سائے میں محشور فرما۔
ان دونوں کرداروں میں سے کونسا عورت کو تحفظ دیتا ہے اور مقام بخشتا ہے۔اسلام کہتا ہے جو کوئی مال و دولت کی وجہ سے ازدواج کرے خدا اسے اس سے محروم کر دیتا ہے کہ شادی کوئی تجارت کا معاملہ نہیں ہے ۔لیکن دوسری شریعتوں میں شادی کا مفہوم غلط لیا جاتا ہے اس طرح انسانیت کے مفہوم کو بھی کم کرتا ہے شادی کو ایک مالی شرکت قرار دیتے ہیں جس سے مرد کو فائدہ حاصل ہوتا ہو لیکن عورتوں کے لئے کوئی آزادی نہ ہو۔
دوسراحصہ: اسلام کی نظر میں عورت کی تعریف
ہر مذہب کی اپنی تعریف کے رجحان کی بنا پر قانون بنتا اور اجراء ہوتاہے پھر حقوق دیے جاتے ہیں ۔ عورت کی تعریف اسلام کی نظر میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث سے پتہ چلتا ہےکہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں۔
“المَرْأة الصالِحَه خَيْرٌ من ألف رَجُلٍ غير صالحٍ” یعنی: “ایک نیک عورت ہزار غیر صالح مرد سے بہتر ہیں ۔”
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت ،معیار ہے،عورت کا عورت ہونا ، مرد کا مرد ہونا کوئی برتری نہیں بلکہ انسانیت معیار ہے جو انسان کو بزرگی و کرامت بخشتا ہے۔ انسانیت کا معیار متقی،پرہیزگار ہونا ہے کہ جس میں جتنا ہوگا وہی برتر و کامل انسان ہوگا۔کیونکہ عورت بھی مرد جیسی مخلوق ہے ۔کہ خدا فرماتا ہے:
“خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها” اور ہم نے تمہیں ایک ہی وجود سے خلق کیا اور اسی سےجوڑا بنایا۔
عورتوں کے بارے میں اسلامی احکام
اگر عورتوں کی موجودگی آج کل کے جدید معاشرے میں بہت زیادہ نظر آتی ہے لیکن قدیم زمانے بھی اہم کردار رہا ہے ہر کام میں مردوں کا ساتھ دیا گیا ہےزراعت وغیرہ میں،اسلام کے احکام عورتوں کے لیے صرف ایک خاص دور میں ہو اور ابھی تغییر ہوا ہو ایسا نہیں ہے بلکہ اسلام ہی وہ واحد مکتب ہے جو عورتوں کو مردوں کے شریک سمجھتاہے۔ خداوند خود فرماتا ہے:
” ومن يعمل من الصالحات من ذكرٍ او انثى و هو مؤمن فاولئِك يدخلون الجنه ولا يظلمون نقيرا “”مومن مرد اور اور عورت میں سے جو کوئی اعمال صالح انجام دیتا ہے وہ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان پر کھجور کے چھلکے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔”
تیسراحصہ: عورتوں کے حقوق
عورت اپنے حقوق میں مرد کے برابر ہے لیکن ایک جیسے نہیں۔ کیونکہ ان میں استعداد ، خلقت اور صلاحیتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن بہت سارے موارد ایسے بھی ہیں ہیں جن میں عورت اپنے حقوق کے لحاظ سے مردوں کے ساتھ مساوی اور مشابہ ہیں دنیا اور آخرت کے معاملے میں دونوں کے لیے پروردگار کی طرف سے سزا وجزا مشخص ہے۔
چوتھاحصہ: عورت اور معاشرہ
الف۔معاشرے میں عورت کا مقام
قران کے نزول کے وقت اور اس سے پہلے بھی عورت کو بڑا مقام حاصل تھا یہاں تک کہ حکمرانی میں بھی عہدہ حاصل تھا۔جیسے زبونیہ اور کلئوپاترا۔
اور یونانی تاریخ میں عورتوں کو خوبصورت مجسمے بنانے میں میں استعمال کیا جاتا تھا اور ان کے آگے رکوع وسجود کرتے تھے پھر ان مجسموں کو مہنگے ترین چیزوں میں استعمال کرتے تھے بالکل اسی طرح فارس وروم کی تاریخ میں عورتوں کے حقوق پامال کیا جاتا تھا حتیٰ کہ یہ شک رہتا تھا کی ان کی روح بھی ہوتی ہے یا نہیں، اس بنا پر عورت کو ایک نجس وجود سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے ایک عورت کے لیے کوئی قید و بند نہیں رکھا۔ اسلام کے مطابق ایک شائستہ اور اچھا مرد وہ ہے جو اپنی بیوی کو اپنے نظریات ،خیالات اور مقاصد میں شریک کریں۔
ب) معاشرے میں عورت کی فعالیت
ایک عورت کے لیے ضروری ہے کہ مہربان، نیک اور شائستہ ہو۔اس لیے کہ ایک عورت کے ہاتھ میں پوری ایک نسل کی تربیت ہوتی ہے پس اگر ایک عورت کی ذات کو وکیل بنایا جائے اس صورت میں وہ بھی اپنی مہربانی اور عطوفت کو دبا کر قضاوت کر لےگی ۔اسلام عورت کو کام کرنے سے منع نہیں کرتا بلکہ عورت بھی اپنی شریعت کے تقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے ہمسرداری، مادری ،خانہ داری کے ساتھ ساتھ ان کاموں کے کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
عرصہ دراز سے کاموں کی تقسیم، ایک اجتماعی ضرورت ہے کہ ہر گروہ کا اپنا خاص کام ہوتا ہے اور آج کل کے حکومت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اسی بنا پر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور زندگی تقسیم کار کے گرد گھومتی ہے۔اسلام بھی مرد اور عورت کے بارے میں وہی کہتا ہے اور ہر کسی کو وہی کام دیتا ہے جس کا وہ اہل ہو۔
پانچواں حصہ: خاندانی نظام اور عورت
الف) خاندان کی تشکیل میں عورت کا کردار
خاندان کی تشکیل میں پہلا اور اہم کردار ہمیشہ عورت کا رہا ہے عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں جیسے رسول خدا ص ایک لڑکی سے کہ جس کے باپ نے زبردستی اس کا اپنے بھتیجے کے ساتھ رشتہ کرایا تھا تھا آپ ص نے فرمایا ۔
“فذهبى فتزوجي من شئت”جاؤ جس کے ساتھ چاہو شادی کر لو۔
ب) خاندانی نظام میں عورت کا مقام
اسلام میں نکاح ایک مقدس بندھن ہے جو وفاداری ،خلوص و محبت کی بنیاد پر ہوتا ہے اسلام اس پہلو کو روشن طریقے سے بیان کرتا ہے اور ان کے حق میں کوئی تجاوز نہیں ہے۔ خداوند فرماتا ہے۔
“ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف وللرجال عليهن درجه والله عزيز حكيم.”عورتوں کا اپنے شوہروں پر جائز حق ہے جس طرح مرد عورتوں پر برتر ہیں اور خدا ہر چیز چیز پر غالب ہے وہ جانتا ہے۔”
یہاں سے سمجھ میں آتا ہے کہ اسلام نے ازدواجی زندگی کو ایک مستحکم رشتہ قرار دیا ہے۔ عورت اپنی خصوصیت ،خلقت اور طبیعت میں مردوں کی نسبت کمزور اور ضعیف تر ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد تصرف میں اور حقوق میں برتری رکھتا ہو۔مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر والوں کی کفالت اور اخراجات کو پورا کریں ان کی حفاظت کریں لیکن ایک عورت بچے کو جنم دیتی ہے پھر اسکی تربیت کرتی ہے۔
پس ایک خاندان کی تشکیل کے لئے ان درجہ بندیوں کی ضرورت ہے۔ لہذا ہر عورت مرد کے لیے کام کرنے کا ایک ذریعہ یا وسیلہ نہیں، مرد پر اس سلسلے میں عورت پر کوئی حق نہیں،روایات اور احادیث اور تمام فقہ اس مطلب پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان تعاون کی قسم کو ان کے مطلوبہ معاہدے پر چھوڑ دیا ہے۔ تاکہ محبت اور پیار کی بنیاد پر زندگی کے مسائل کے حل کے لیے مل جل کر قدم اٹھا سکیں۔
ج)ماں کا کردار
ماں کی ذمہ داری ایک مقدس، سب سے بڑی اور سنگین ذمہ داری ہے۔ماں کی مہربانیت، محبت ،شفقت اس ذمہ داری کو نبھانے میں مدد کرتی ہے۔اسلام نے عورت کو یہ احساس دلایا کہ وہ اپنے بچے کو اپنی قوم اور معاشرے کے لیے پیدا کرتی ہیں ایک بچے کے کامیابی اور تربیت یافتہ ہونے کے پیچھے ایک ماں کا ہی کردار ہوتا ہے اسلام نے ماں کی مقام کو بلند کیا اور جنت کو ماؤں کے قدموں کے نیچے قرار دیا۔
د) طلاق میں عورت کا کردار
اسلام نے جہاں پر مرد کو طلاق کا حق دیا ہے وہاں عورت کو بھی خاص شرائط کے ساتھ طلاق کے قائل ہیں کہ عورت بھی اپنی طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے چنانچہ عورت حاکم کے درخواست کے ساتھ طلاق لے سکتی ہے۔
چھٹاحصہ: عورت کی ملکیت اور ذمہ داری
اسلام میں عورت کی ملکیت حوالہ دینے سے پہلے اس سلسلے میں مغربی کچھ قوانین بیان کر دیا جاتا ہے جسے انسانی قانون سازی کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ مغرب کے قانون سازی کچھ اس طرح ہے کہ میاں بیوی کو حق حاصل ہے کہ ان چند قوانین میں سے جس قانون کا بھی انتخاب کرے۔
1-میاں بیوی اپنے مال میں مشارکت رکھتے ہو کہ اپنے اموال کو تین حصوں میں تقسیم کرے.
پہلا۔ دونوں کے لیے غیر قابل تقسیم ہو
دوسرا ۔یہ کہ ایک حصہ مختص شوہر کیلئے
تیسرا۔ایک حصہ بیوی کے لیے مختص ہو۔
اور شوہر بعنوان سربراہ تینوں حصوں میں تصرف کا حق رکھتا ہے۔
2۔اگر دونوں کےمال میں مشارکت نہ ہو دونوں کامال الگ ہو اس صورت میں شوہر صرف حق رکھتا ہے کہ اپنے زوجہ کے مال میں تصرف کرے۔
3۔تیسرا قانون یہ ہے کہ اس انتخاب میں ہر کسی کامال الگ کیا جائے اور دونوں کا الگ حق تصرف ہے مگر اس میں بھی زوجہ اپنے شوہر کے ساتھ مشارکت کی بنا پر اپنے مال میں سے شوہر کو دے سکتی ہے۔
4۔اس آخر قانون سازی میں عورت اپنے مال کو جہیز اور غیر جہیز میں تقسیم کرتی ہیں کہ شوہر کو اس میں تصرف کا حق حاصل ہے ۔
مغرب میں شادی کو ایک مالی معاہدے کے طور پر پہچانا جاتا ہے اور اس مالی معاہدے میں چند باتیں قرار پاتی ہیں۔
الف) شوہر حق رکھتا ہے کہ میاں بیوی کی مشارکت کی وجہ سے کہ اپنی بیوی کے اموال پر تسلط حاصل کریں مگر یہ کہ نکاح کے وقت شرط رکھی جائے کہ تسلط حاصل نہیں کرسکتا.
ب) شوہر کا بیوی کے اثاثے پر تسلط کا ہونا ایک مطلقاً ہے اور حقیقی مالک ہوتا ہے.
ج) ایک میاں،بیوی کے مال اور اثاثے میں میں فضول خرچی اور اسراف پر مرد زمہ دار نہیں بلکہ عورت اپنی غلطیوں اور اسراف کی ذمہ دار ہے۔
لیکن اسلام ازدواجی زندگی کو ایک تجارت اور مادی تلازم سے نہیں دیکھتا بلکہ اسلام میں بطور کامل چاہے بیٹی ہو یا ماں یا بیوی ہر کوئی اپنے مال پر حق رکھتی ہے اور مرد کو کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنی بیوی کی مال تصرف کرے خواہ بیوی مالدار ہی کیوں نہ ہو ۔اسی طرح وہ تمام چیزیں جو اسے ہدیہ یا شادی کے بعد یا شادی سے پہلے ملتی ہے وہ خاص عورت کی ہی میں ملکیت ہے شوہر پر کوئی حق نہیں ہے کہ اسمیں تصرف کرے۔
عورت کی میراث
مرد اور عورت میں فرق ہونے کی حکمت یہ ہے کہ ان کے وظائف اور ذمہ داریاں فرق کرتا ہے کہ عورت زندگی کو چلانا ،گھر کے اخراجات مرد کے ہاتھ میں ہے۔لیکن عورت کے اوپر ایسی سے ذمہ داری نہیں ہے لہذا ضروری ہے کہ عورت کا حصہ ایک اور مرد کا حصہ دو برابر ہو۔
ساتواں حصہ: حجاب کا صحیح مفہوم
اسلام میں حجاب کا صحیح معنی پوشش اور چھپانا ہے۔ کلمہ حجاب سے مراد کنارہ کشی اختیار کرنا ،عورت کا پردہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ بالکل معاشرے سے الگ ہو بلکہ فتنہ انگیز معاملات سے بچنا ہے اسی وجہ سے قرآن میں حجاب کا ایک لفظ ایک جگہے پر آیا: “واذا سالتموهن متاعا فسٔلوهن من وراء حجاب”اگر ان سے کچھ چاہو تو پردے کے پیچھے سے لے لو۔ یہ آیت ازواج رسول ص سے منسوب ہے یہ اخلاقی خصوصی امر ہے۔خدا فرماتا ہے:
“فى للمومنين يغضضن من ابصارهم”مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی آنکھیں جھکائے رکھے۔
“وقل للمؤمنات يغضضن من ابصارهن”اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کی وہ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
اگر اسلام کا مقصد عورت کو صرف معاشرے سے دور اور کنارہ کشی کرنا ہوتا تو یہ حکم کس کام کا؟مردوں اور عورتوں کا اپنی آنکھوں کو جھکائے رکھنے کا حکم یہ اس چیز کو بتاتا ہے کہ اسلام کے مطابق مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ کام کر سکتے ہیں مرد اور عورت دونوں کے لیے جنسی غرایز کی رکاوٹ, پوشش اور حجاب کو شرط قرار دیا ہے۔
فلسفہ حجاب
اگر معاشرے میں جنسی خواہشات کو حرکت دینے کے عوامل موجود ہوں اور اپنی خواہشات نفسانی اور شہوات کا جواب دے دیں اس صورت میں پوری انسانیت کی کرامت ختم ہو جائے گی اپنی ذمہ داریوں اور معاشرے کے ساتھ خیانت ہو گا ۔تمام انسان جس کو خدا شرف بخشتا ہے زمین پر خلیفہ اللہ قرار دیا ہے تمام بیماریوں اور کثافتوں سے آلودہ ہو جائے گا پھرانسان کا وجود مقدس نا پذیر ہو جائے گا۔
مرد اور عورت میں سے کوئی بھی اس لیے خلق نہیں ہوا کہ ایک دوسرے کو ملکیت میں لے لیں بلکہ دونوں ایک انسان ہے ۔ لہذا انسان،معاشرے سے ارتباط رکھتا ہے تو دونوں کا وجود ن معاشرے میں ضروری ہوتا ہے۔اگر کوئی کہتا ہے کہ پردہ کرنا لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے تو یہ پردہ کرنا، خود ایک عبادت ہے خدا فرماتا ہے:
“وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون”اور یہ کام امر بالمعروف و نہی از منکر کا ایک بہترین ذریعہ ہے ایک عورت اپنے پردے سے مسلمان عورتوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے ۔تو اس نے خاموشی سے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی ہے ۔
آٹھواں حصہ : چندغلط مفہوم
مختلف معاشروں میں عورتوں کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ضرب المثل بن چکی ہے۔اسلام نے ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ روشن خیالیاں فراہم کی ہے۔
الف) عورت گناہ کا ذریعہ
بہت ساری ثقافتوں میں عورت کو گناہ کا ذریعہ قرار دیتے ہیں حتی حضرت آدم کو بہشت سے نکالنے والی داستان بھی عورت کے سر ڈالتے ہیں لیکن اسلام طرح کی باتوں کو قبول نہیں کرتا کیونکہ خدا خود فرماتا ہے: “فوسوس لهما الشيطان.”ترجمہ۔شیطان نے میں نے انہیں آزمایا۔”
بعض مقامات پر حضرت آدم کا ذکر صرف آیا ہے۔”فوسوس اليه الشيطان قال ياادم هل ادلك على شجرة الخلد. ” پھر شیطان نے اسے آزمایا اور کہا! اے آدم کیا میں تمہیں فانی درخت اور غیر فانی درخت دکھاؤں؟
قرآن میں کسی بھی جگہ اس نافرمانی کو صرف حضرت حوا کی طرف نسبت نہیں دیا ہے بلکہ بعض جگہوں پر دونوں کو اس عمل میں یکساں قرار دیا ہے۔”فدلاهما بغرور.”پس اس نے ان کو فریب اور جھوٹ پر اتارا۔”
ان آیات میں خدا نے شیطان کی فریب اور جھوٹ کو حضرت حوااور حضرت آدم کے بہشت سے نکالنے کی کیا وجہ قرار دیا ہے حضرت حوا پر کسی قسم کے گناہ کی نسبت نہیں دی گئی ہے کہ ان کی وجہ سے بہشت سے خارج کیا ہو۔
ب) مرد کی خاطر عورت کی تخلیق
ایک اور غلط فہمی جو مختلف ثقافتوں میں رائج ہے وہ یہ ہے کہ عورت کو مرد کے لئے خلق کیا ہے اور عورت کو کوئی استقلال نہیں ہے اسلام بالکل اس نظریے کی نفی کرتا ہے اور اگر خلقت کا مقصد صرف مرد ہوتا تو عورت کو ہی خلق نہیں کرتا لیکن درحقیقت مرد اور عورت دونوں کا مقصد ہے۔ اسلام کے مطابق عورت کو ایک آزاد وجود کے طور پر پیدا کیا ہے۔
ج)بچوں کے ساتھ رابطے میں ماں کا مقام
بہت ساری ثقافتیں ماں کو کسی بھی حق کا مستحق نہیں سمجھتے اور بچے کو صرف باپ سے متعلق جانے جاتے ہیں لیکن اسلام میں عورت کا مقام بہت بلند ہے اور حدیث میں ہے کہ رسول خدا ص بہشت کو ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیتے ہیں۔ اور ماں کی رضایت کو خدا کی رضایت قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں والدین کے بارے میں سفارش کی ہے کہ ان کے لیے اف تک نہ کرنے کا حکم دیا ہے اور قرآن کی آیتوں میں ماں کی وہ سختیاں جو اپنے بچوں کے لئے جھیلتی ہیں، بیان کیا ہے تاکہ ماں کی اہمیت و قدر کو سمجھ سکیں۔
نواں حصہ: مسلمان عورت کی پسماندگی کی وجہ، اور اس سے بچنے کا طریقہ
جب راہبہ عورتوں کے حجاب کا ذکر ہوتا ہے تو ان کی تعریف و تمجید کی جاتی ہے اور ان کی حیا اور عفت اور بزرگی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اسی زمانے میں مسلمان لڑکیوں کی حجاب کو ان کی پسماندگی قرار دی جاتی ہے۔ کیونکہ بڑی طاقتیں راہبہ عورتوں کی حمایت کے لئے تبلیغ اور منصوبہ بندی کرتی ہیں اور مختلف طریقوں سے ان کی حمایت کرتی ہیں۔
اس کے برعکس اگر مسلمان لڑکیاں تفرقہ بازیوں کا شکار نہ ہوتی تو دنیاإ میں عظیم خواتین کے عنوان سے اپنا مقام حفظ کرسکتی اور آئیڈیل عورت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش ہوسکتی تھیں۔ اوع مغرب کی طرف جذب ہونے کی بجائے ان کی لڑکیوں کو ااپنی طرف جذب کرسکتی تھیں۔ جس طرح اسلام کے شروع میں اس طرح کی مختلف مثالیں نظر آتی ہیں۔
مسلمان عورتوں کی موجودہ صورت حال کی سب سے بڑی وجہ اصل اسلام سے دور ہونا ہے درحقیقت خود اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ اور عزت و کرامت کا ضامن ہے وہ متعصب افراد جو عورتوں کے مقابلے میں افراط تفریط پھیلاتے ہیں۔اور اپنی طرف سے عورتوں پر مختلف کے قید ، پابندیاں اور شرائط کے قائل ہیں۔ ایسا نہ خدا فرماتا ہے اور نہ ہی رسول بلکہ یہ لوگ خود اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں ۔اگر اسلام نے بعض امور میں عورت کے لیے کہا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو مفادات کی سلسلے کی بنا پر خود عورت کے مفاد میں ہے لیکن اس طرح عورت کو کھلونا نہیں بنایا ہےکہ اس کے ساتھ کھیلا جائے۔
پس عورت کو اپنا حقیقی مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لئے واحد حل یہ ہے کہ اصل اسلام کی طرف لوٹے اور اسلام کو پہچانیں ۔ تاکہ وہ تمام حقوق جو اسلام نے ایک عورت کے لیے مقرر کی ہے اس کی رعایت کی جائے پھر ان تمام حقوق کی پاسداری کرے کہ مذہب کے نام پر اپنی خواہشات کو ان پر مسلط نہ کریں۔
نتیجہ:۔
عام طور پر تمام ماضی کی تہذیبوں میں خواتین کو ان کی حیثیت نہیں ملتی انکا رابطہ معاشرے کے ساتھ جنس پر مبنی تھا۔اسلام نے شروع دن سے ہی عورت اور مرد کو برابر قرار دیا ہے اور عورتوں کی مظلومیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ اور بہت ہی کم عرصے میں اسلامی فکر کو فروغ دیا اور اسلامی کے احکام کو رائج کیا۔
اسلام عورت کے حقوق کو مردوں کے مساوی سمجھتا ہے لیکن ایک جیسی نہیں ،کیونکہ دونوں کےحقوق ،طبیعت اور وظائف فرق کرتا ہے۔اسلام میں خواتین کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کوئی قید و شرط نہیں ہے بلکہ اسلام نے ان کے لیے کچھ فطرت کے تقاضوں کے مطابق قانون رکھا ہے جس کو متاسفانہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور افراط تفریط کی جاتی ہے۔
اور اسلام شائستہ وصالح مرد اس کو قرار دیتا ہے ،جو اپنی بیوی کو فکر ، خیالات اور اہداف میں شریک سمجھے۔ اسلام میں باہر نکلنے سے منع نہیں کیا مگر یہ کہ حجاب اور پردے کے ساتھ ،سماجی زندگی کی بنیاد محنت کی تقسیم کے گرد گھومتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے کے لوگ ایک دوسرے کے محتاج ہے اس لئے اسلام ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں یکساں طور پر کام کرتا ہے۔
اسلام بچے کو ماں کا مرہون منت، اور اللہ تعالی کی رضا تک پہنچنے کے راستے کو ماں کی تسکین قرار دیتا ہے۔طلاق کی صورت میں عورت شادی کے دوران یا شادی کے بعد درخواست دائر کرکے جج کے پاس سے طلاق لے سکتی ہیں۔اسلام عورتوں پر کوئی مالی ذمہ داری عائد نہیں کرتا ہے اس لیے میراث میں ایک ہی حصہ ملتا ہے ۔اور مرد کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی بیوی کے حصے پر قبضہ کرے اور تصرف کا حق نہیں رکھتےہیں۔لیکن مغرب میں مرد کو اپنی بیوی کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی اجازت ہے اور تصرف کا حق رکھتے ہیں۔لیکن اسلام میں شادی ایک مقدس بندھن ہے۔ جس میں مادی امور کے ساتھ کوئی ربطہ نہی اور نہ ہی ایک تجارت ہے۔
پوشش اور پردہ ،حجاب سے عام ہے ،یعنی کنارہ کشی اختیار کرنا،قرآن کریم میں یہ لفظ حجاب کی ایک صورت میں آیا ہے جو ازواج مطہرات کے لئے استعمال ہوا ہے۔لیکن مردوں اور عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے حجاب کا نہیں،کیونکہ یہ دونوں معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور ان کی سرگرمیاں انسانیت ہونے کی بنیاد پر ہونی چاہیے نہ کہ مرد، عورت ہونے سے،لہذا ان میں سے کسی کو بھی حق حاصل نہیں، کہ اپنی جنسی خصوصیات کو ظاہر کرے ۔باقی تہذیبوں کے بر خلاف اسلام کسی بھی عورت کو گناہ کا سرچشمہ قرار نہیں دیتا اور کسی بھی لحاظ سے حضرت حوا کو بہشت سے خارج ہونے سبب نہیں سمجھتے ہیں۔
مسلمان عورتوں کی پسماندگی کی وجہ تو ایک طرف ان کے لیے کسی قسم کی حمایت کا نہ ہونا، دوسری طرف مغرب پرستوں اور متعصب لوگوں کا شکار ہونا ہے ۔اس کا واحد حل یہی کی اسلام کی اصل کو پہچانیں اور غلط افکار،فاسد عقائد کے بجائے اسلامی فکر پر حکمرانی کرے۔اس لئے دین اسلام عورتوں کو مکمل طور پر مردوں کے برابر سمجھتا ہے اور دونوں کو ہی خلیفہ خدا تصور کرتا ہے۔لہذا اس مضمون کے مفروضے کی جانچ کا نتیجہ مثبت ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .