حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج کی مسلمان خاتون کے سامنے دو متضاد تصویریں ہیں: ایک روایتی تصویر جو اسے گھر تک محدود کرتی ہے، دوسری مغربی تصویر جو اسے مصرف کرنے اور ظاہری نمائش کا ذریعہ بناتی ہے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان ایک تیسری راہ بھی ہے جو دین کے صحیح تعارف، انقلاب اسلامی کے تجربات اور رہبر انقلاب کے بیانات سے نکلی ہے۔ یہ عورت کو باشعور، عقل و فہم رکھنے والی، فعال اور تہذیب ساز شخصیت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ (کتاب الگوی زن، ۱۴۰۰)۔
مقام معظم رهبری فرماتے ہیں: "مشرقی تصور میں عورت تاریخ سازی میں بے نقش ہے اور مغربی تصور میں عورت کی جنسیت اس کی انسانیت پر غالب آ جاتی ہے، لیکن تیسری قسم میں مسلمان عورت ایک مکمل، سمجھ دار، باایمان اور تہذیب ساز انسان ہے" (۱۳۹۸)۔
یہ تصور عورت کو مرد کا مقابل نہیں بلکہ اس کا شریک قرار دیتا ہے۔ عورت گھر اور معاشرے دونوں میں مؤثر کردار ادا کرتی ہے، علم و ثقافت میں بھی اور نسل کے تربیتی نظام میں بھی۔
قرآن کریم میں خواتین کی اجتماعی ذمہ داریوں پر بھی تاکید کی گئی ہے۔ سورہ قصص کی آیت نمبر ۲۵ میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کی معاشی و سماجی فعالیت کا ذکر باحیا انداز میں کیا گیا ہے۔
حضرت مریم علیہا السلام سورہ زمر کی آیت ۹ میں علم و عبادت اور مادری شفقت کے حسین امتزاج کی مثال کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔
آیت اللہ خامنهای فرماتے ہیں: "عورت کو علم، فکر، ثقافت اور سیاست کے میدانوں میں بھی نمایاں ہونا چاہیے" (کتاب الگوی زن، ۱۴۰۰)۔
عورت کے سماجی کردار کے حوالے سے قرآن فرماتا ہے: ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ﴾ (توبہ: ۷۱) یعنی مرد اور عورت دونوں اجتماعی اصلاح کے شریک ہیں۔
ملکہ سبا کا واقعہ (نمل: ۲۹) اس بات کی دلیل ہے کہ عورت "مدیر، دانا اور سیاسی بصیرت رکھنے والی" ہو سکتی ہے۔
مقام معظم رهبری فرماتے ہیں: "مسلمان عورت انتظامی و سیاسی میدان میں قدم رکھ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنی اسلامی ہویت کو محفوظ رکھے" (خامنهای، سیدعلی. بیانات درباره الگوی سوم زن)۔
حجاب اس تناظر میں رکاوٹ نہیں بلکہ "باوقار اور محفوظ حضور" کی ضمانت ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿یُدْنِینَ عَلَیْهِنَّ مِن جَلَابِیبِهِنَّ﴾ (احزاب: ۵۹) ﴿وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ﴾ (نور: ۳۱) معلوم ہو کہ پردہ عورت کی عزت و حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے اسے معاشرتی کردار ادا کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اسلام نے معاشرتی رابطوں کے اصول بھی مرحلہ وار بیان کیے ہیں۔ یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام معاشرتی زندگی کو "احترام، عقلانیت اور پاکیزگی" کی بنیاد پر تشکیل دیتا ہے۔
خلاصہ
تیسری قسم میں عورت کا تصور ایک "قرآنی، متوازن اور تہذیب ساز" تصور ہے۔ یہ عورت کو ایک بااختیار، باوقار اور ذمہ دار انسان کے طور پر متعارف کراتا ہے اور آج کی مسلمان عورت کے فکری و سماجی مسائل کا جواب رکھتا ہے۔
مآخذ:
قرآن کریم (ترجمہ آیت اللہ مکارم شیرازی)
بیانات مقام معظم رهبری (۱۳۹۵، ۱۳۹۸) / کتاب «الگوی زن»
یوسفی، محمدرضا (۱۳۹۷)
لولاآور، منصوره؛ شاهمرادی، راضیہ (۱۳۹۳)









آپ کا تبصرہ