حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام و المسلمین محمدرضا زیبایی نژاد، جو "ادارۂ تحقیق برائے خواتین و خاندان" کے سربراہ ہیں، نے "ماں اور باپ کے کرداروں کو تبدیل نہ کیے جا سکنے" کے موضوع پر ایک سوال و جواب میں گفتگو کی، جسے اہلِ علم و فہم حضرات کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال : کچھ لوگ، خاص طور پر فیمینسٹ نظریات کی روشنی میں، جنسوں کی برابری کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مرد اور عورت کے کرداروں میں فرق صرف جسمانی فرق کی وجہ سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہارمونی تبدیلیاں کی جائیں، جیسے کہ ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار بڑھا دی جائے، تو مردانہ یا زنانہ خصوصیات کو دوسرے جنس میں پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے، تو پھر یہ کیسے سمجھایا جائے کہ بعض مرد اپنی مردانہ خصوصیات کھو دیتے ہیں یا بعض عورتوں میں مردوں جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں؟
جواب:
یہ مسئلہ جزوی طور پر انسان کی تخلیقی ساخت (یعنی فطری نظام) سے جڑا ہوا ہے۔ مثلاً مردانہ اور زنانہ روحیں (نفسیات و شخصیت) فطری لحاظ سے ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر، مردوں کی شجاعت عورتوں کی شجاعت سے مختلف ہوتی ہے، کیونکہ مردوں کے جسمانی ڈھانچے میں زیادہ سختی اور طاقت ہوتی ہے، جبکہ عورتوں کا جسمانی ڈھانچہ اس طرح کا نہیں ہوتا۔ یہ فرق صرف جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اور روحانی پہلوؤں میں بھی پایا جاتا ہے۔
کیا جنس کی تبدیلی سے ماں اور باپ کے کردار بدلے جا سکتے ہیں؟
اس کے علاوہ، کچھ فرق معاشرتی کرداروں کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کسی معاشرے کا تربیتی نظام، انسان کی فطری ساخت سے ہم آہنگ ہو تو لڑکوں کی شناخت درست طریقے سے بنتی ہے اور ان کی مردانگی صحت مند اور متوازن طریقے سے پروان چڑھتی ہے۔ لیکن اگر تربیتی نظام انسان کی فطری ساخت کے خلاف ہو اور مردانگی کا انکار کرے جیسے یہ کہنا کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے تو اس سے شناختی الجھن پیدا ہوتی ہے۔
ایسے میں انسان کے ذہن میں اپنی ذات کی تصویر بگڑ جاتی ہے، اس کی سماجی کارکردگی کمزور پڑتی ہے اور نتیجتاً ذہنی و نفسیاتی مسائل اور بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال ہم خواتین کھلاڑیوں میں دیکھ سکتے ہیں، جو مقابلوں میں کامیابی کے لیے مردانہ ہارمون "ٹیسٹوسٹیرون" کا استعمال کرتی ہیں۔
ایسی صورت میں، ان میں مردانہ خصوصیات ایک غیر متوازن اور غیر فطری طریقے سے بڑھتی ہیں۔ لہٰذا، جب ایک مرد عورت کا کردار ادا کرنا چاہے تو وہ حقیقت میں عورت نہیں بنتا، بلکہ ایک غیر متوازن حالت اختیار کر لیتا ہے، اور جب ایک عورت مرد کا کردار اپنانا چاہے تو وہ حقیقت میں مرد نہیں بنتی بلکہ ایک غیر متوازن مرد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
یہ محض دکھاوے کی باتیں ہیں، جن کے پیچھے گمراہی اور نقصان چھپا ہوتا ہے۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ خاندان کو تباہ کرنے کی اصل کنجی کیا ہے؟ تو میرا جواب ہوگا: "مرد و عورت کی یکسانیت کا دعویٰ"۔
کوئی چیز خاندان کو اس قدر خطرے میں نہیں ڈالتی جتنی کہ مرد و زن میں مساوات کا نظریہ (Gender Equality) جو یہ کہتی ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان فرق صرف ایک سماجی وہم یا دقیانوسی خیال ہے۔
مرد کو مرد ہی رہنا چاہیے اور عورت کو عورت ہی۔
اگر ہم ان فطری فرقوں کو نظرانداز کریں اور کہیں کہ دونوں کا کردار یکساں ہونا چاہیے، تو اس کا نتیجہ خاندان کی بربادی ہوگا۔
مثال کے طور پر، حال ہی میں بھارت میں ایک قانون منظور کیا گیا جس نے ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دے دی۔
بھارت کے ہم جنس پرستوں نے اعلان کیا کہ: "ہم جنس پرستی کی آزادی ہمیں جنسوں کی برابری کے راستے ملی ہے۔"
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ جب ہم جنسوں کی برابری کی راہ کھولتے ہیں، تو یہ آخرکار اخلاقی گمراہیوں تک لے جاتی ہے اور زندگی کے لیے کوئی محفوظ، پاکیزہ ماحول باقی نہیں رہتا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کا رسمی تعلیمی و تربیتی نظام بھی بچوں کی تربیت میں نرمی اور لاپرواہی کا شکار ہو چکا ہے۔
جب ہم لڑکے اور لڑکی کو ایک ہی جیسی قدروں، خوابوں اور جذبات کے ساتھ تربیت دیتے ہیں — جو ان کی فطری ساخت سے مطابقت نہیں رکھتے — تو جب وہ بلوغت کو پہنچتے ہیں اور دینی احکام کو سمجھنا شروع کرتے ہیں، تو جنسی شناخت کی درست تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان احکام کو سمجھنے اور قبول کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں اور ان کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔
مردوں میں غیرت کی کمزوری بھی بڑی حد تک انہی تربیتی اور میڈیا کے نظاموں کا نتیجہ ہے جو مردانگی اور غیرت کی غلط اور بگڑی ہوئی تصویر پیش کرتے ہیں۔
حالانکہ غیرت ہی خاندان کو محفوظ رکھنے والی چیز ہے، یہی سماجی پاکیزگی کی ضمانت ہے، اور یہی عورتوں اور مردوں کی عزت، حیاء اور عفت کی حفاظت کرتی ہے۔
لہٰذا، یہ ساری خرابیاں بنیادی طور پر اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم بچوں میں صحیح جنسی شناخت (مرد ہونا، عورت ہونا) کی تربیت نہیں دے پاتے۔









آپ کا تبصرہ