جمعہ 5 ستمبر 2025 - 09:55
شادی شدہ زندگی؛ نیا اندازِ زندگی یا والدین کی عادات کا اعادہ؟

حوزہ/ ازدواج کا مطلب ہے زندگی میں ایک نیا انداز اپنانا، نہ کہ والدین کے رویوں کی بالکل نقل کرنا۔ ہمارا ذہن مرد اور عورت کے کردار کو اپنے والدین کے ساتھ جوڑتا ہے، اور ہم غیر ارادی طور پر توقع کرتے ہیں کہ ہمارا شریک حیات ویسا ہی برتاؤ کرے گا۔ جب یہ توقع حقیقت سے مختلف ہو اور ہم اختلافات کو سمجھنے کی بجائے دوسروں پر تنقید کرنے لگیں، تو ازدواجی زندگی میں تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین رضا یوسف زادہ، ماہر امور تربیت خانواده، نے ایک معیاری گفتگو میں ازدواجی زندگی اور خاندانی اختلافات کے انتظام کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا، جسے معزز قارئین کے حضور پیش کیا جا رہا ہے۔

گفتگو کے آٹھ اہم نکات درج ذیل ہیں:

1. دوسروں پر قضاوت کرنا منع ہے، اور ہمیں اختلافات کو سمجھنے پر توجہ دینی چاہیے۔

2. مرد اور عورت کے کرداروں کا فرق اور شادی شدہ زندگی پر اس کا اثر ـ

3. مختلف خاندانی طرز زندگی اور عادات کو قبول کرنا۔

4. شادی اور خاندانی تعلقات میں حقیقت پسندانہ توقعات قائم کرنا۔

5. والدین کے ساتھ اختلافات کو سنبھالنا اور مسائل کا معنیٰ تلاش کرناـ

6. ارادے کو مضبوط کرنا: "مقصد سمجھ کر، چھوٹے اہداف بنا کر اور بار بار کوشش کر کے"

7. حد سے زیادہ کمال پسندی سے بچنا اور کامل ہونے کا انتظار کیے بغیر عملی قدم اٹھانا۔

8. سسرال کے مداخلت کو سنبھالنا اور اچھی نیند کا خیال رکھناـ

زندگی کے اختلافات کا سامنا کرتے ہوئے قضاوت کرنا درست نہیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھیں، نہ کہ فیصلہ کریں۔

خاندانی اختلافات میں ایک اہم پہلو جنس کی بنیاد پر کرداروں کا فرق ہے۔

یہ کردار خاندان کے کاموں کی تقسیم کو ظاہر کرتا ہے کہ کون کون سی ذمہ داریاں کس پر ہیں۔

مثلاً، ایک گھر میں بیٹے اور بیٹی سے مختلف توقعات ہوسکتی ہیں، یا عورت اور مرد کے کرداروں کے بارے میں خاندانوں کی سوچ مختلف ہو سکتی ہے۔

کچھ گھر میں مرد سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ مخصوص کام کرے، عورت سے دوسرے کام، اور بچوں سے الگ ذمہ داریاں انجام دیں۔

اسی طرح، خاندان کے تمام افراد "والدین، بیٹے، بیٹی" فیصلہ سازی میں مختلف مقدار میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی کو جنس کی بنیاد پر کرداروں کا فرق کہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ فرق کب مسئلہ بن جاتا ہے؟

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مرد اور عورت کے بارے میں پہلی تصویر ہمارے ذہن میں ہمارے والدین کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔

اگرچہ سوشل میڈیا عام ہوگیا ہے، پھر بھی سب سے زیادہ اثر رکھنے والی اور مستقل تصویر وہی ہے جو ہم نے اپنے والدین سے سیکھی ہے۔

لہٰذا، جب ہم شادی کرتے ہیں، تو ہم غیر شعوری طور پر توقع کرتے ہیں کہ ہمارا شریک حیات والدین کے جیسے کردار ادا کرے گا۔

اگر یہ توقع اور حقیقت میں بڑا فرق ہو تو جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔

مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اختلافات کو سمجھنے کے بجائے دوسروں پر تنقید کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں: "تم غلط ہو، تمہیں میرے خیال کے مطابق ہونا چاہیے۔"

حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ شادی کا مطلب ایک نیا طرز زندگی اپنانا ہے۔

خاندانی انداز زندگی صرف ایک عمومی ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں، لیکن زندگی میں انہیں بالکل ویسے ہی دہرایا نہیں جا سکتا۔

مثال کے طور پر، ایک لڑکا چاہ سکتا ہے کہ اس کی بیوی وہی کردار ادا کرے جو اس کی والدہ گھر میں کرتی تھیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری مائیں پانی لانے کے لیے بہت محنت کرتی تھیں یا کپڑے دھونے میں سخت مشقت کرتی تھیں، اور اسے معیار سمجھتے ہیں۔

لیکن ہوسکتا ہے کہ شریک حیات کے خاندان میں مرد گھر کے کاموں میں زیادہ شریک ہوتے ہوں اور فیصلے مل جل کر لیے جاتے ہوں۔

یہ فرق سمجھنا اور قبول کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم دو مختلف ماڈلز سے آئے ہیں اور ہمیں ایک مشترکہ راستہ تلاش کرنا ہے۔

اسی طرح، خاندانی عادات اور طرز زندگی بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً، ایک خاندان میں بیٹھنے کا ایک خاص انداز معمول ہوتا ہے، لیکن نیا فرد اسے بے ادبی سمجھ سکتا ہے۔

ایسے موقعوں پر میں لوگوں سے پوچھتا ہوں: "کیا واقعی یہ رویہ آپ کے لیے بے احترامی ہے یا صرف ایک خاندانی عادت؟" اگر جواب ہاں میں نہیں ہوتا تو مطلب یہ ہے کہ مسئلہ بے ادبی کا نہیں بلکہ عادت کا ہے۔

لہٰذا، ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ عادات اور طرز زندگی مختلف ہوتے ہیں، اور اپنی عادات کے مطابق قضاوت کرنا غلط ہے۔

اس طرح، میں جس خاندان میں پلا بڑھا ہوں اس کا طرز زندگی اور میرے شریک حیات کے خاندان کا طرز زندگی مختلف ہوتا ہے۔

یہ فرق، جیسا کہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے، کوئی فضیلت یا برتری کی بنیاد نہیں ہیں۔ خداوند فرماتا ہے: «إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّهِ أَتْقَاکُمْ» "بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔"

اس لیے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ "میرا خاندان بہتر ہے، تمہیں اسی طریقے کو قبول کرنا چاہیے۔" ہمارا کام دوسروں کی زندگی کے انداز اور اقدار کو بدلنا نہیں بلکہ اختلافات کے ساتھ مل کر زندگی گزارنا ہے۔

اس کے لیے پہلے ہمیں اختلافات قبول کرنے چاہئیں، پھر اپنی توقعات کو حقیقت کے مطابق رکھنا چاہیے۔

جیسے تین ماہ کے بچے سے بھاری کھانے کی توقع نہیں کی جا سکتی، ویسے ہی ہم شریک حیات سے ایسے مطالبات نہ رکھیں جو اس کے خاندانی یا ماحول کے حالات سے باہر ہوں۔

اگر میں صرف کہوں: "یہ میری خواہش ہے اور اسے پورا ہونا چاہیے،" تو یہ تعلقات کی پختگی کی نشانی نہیں ہے۔ میری خواہشات صرف موجودہ حالات کے دائرے میں ہی معنی رکھتی ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha