حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین محمدرضا زیبائینژاد، "خواتین و خاندانی امور کے تحقیقی ادارے کے سربراہ"، نے "باپ کے کردار اور بیٹی کی سسرال کے بارے میں مثبت سوچ" کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باپ کی رہنمائی اور رویہ، بیٹی کی ازدواجی زندگی پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
باپ کا تربیتی و ذہنی کردار
زیبائینژاد کے مطابق، باپ بیٹی کو نہ صرف شادی کے بعد کے نئے ماحول سے آشنا کرتا ہے بلکہ اُسے اس بات پر آمادہ بھی کرتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ایک خاندان کے سربراہ کے طور پر تسلیم کرے۔ اسی طرح باپ یہ سکھا سکتا ہے کہ اسلامی خاندان کے نظام میں خاندانی رشتوں کی کیا اہمیت ہے اور ان سے کس طرح مثبت انداز میں برتاؤ کرنا چاہیے۔
ذاتی تجربے کی روشنی میں مثال
انہوں نے بتایا کہ ان کی دونوں بیٹیاں دس سال سے زائد عرصے سے اپنے سسر کے گھر کی اوپری منزل پر مقیم ہیں اور کبھی کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں کیا۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ نہ صرف داماد کے والدین شریف النفس اور مہربان تھے، بلکہ خود وہ اور ان کی اہلیہ نے بھی بیٹیوں کو سسرال کے بارے میں ہمیشہ مثبت اور محبت بھرا تاثر دیا۔
انہوں نے مزید کہا: ’’میری بہو بھی ہمارے گھر میں اوپری منزل پر رہتی ہے، اور ہم نے ہمیشہ اُسے بیٹی کی طرح سمجھا ہے۔ آج تک کبھی اُس پر تنقید نہیں کی، کیونکہ نکتہ چینی رشتوں میں تلخی پیدا کرتی ہے اور بعض اوقات طلاق جیسے خطرناک فیصلوں تک لے جاتی ہے۔‘‘
بے جا حمایت نہیں، رشتہ جوڑنے کی حکمت عملی
زیبائینژاد کا کہنا تھا کہ جب بھی شوہر اور بیوی کے درمیان اختلافات ہوں، والدین کو خاص طور پر باپ کو چاہیے کہ وہ بیٹی کی بے جا حمایت کرنے کے بجائے رشتہ جوڑنے والا کردار ادا کرے۔ اختلافات فطری ہوتے ہیں، لیکن باپ کا فرض ہے کہ وہ ان اختلافات کو سلجھانے والا ہو، نہ کہ مزید بگاڑ پیدا کرنے والا۔
نتیجہ
آخر میں انہوں نے کہا: ’’ایک سمجھدار باپ وہ ہوتا ہے جو ازدواجی زندگی کی حقیقت کو سمجھے، اختلافات کے باوجود تعلقات کو برقرار رکھنے کی فضا فراہم کرے اور خود کو تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ آسانی پیدا کرنے والا بنائے۔‘‘
یہی رویہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی، خوشگوار خاندانی رشتوں اور بیٹی کے لیے سسرال کو گھر سمجھنے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔









آپ کا تبصرہ