بدھ 18 دسمبر 2024 - 13:59
کیا عورت کو مرد کی پسلی سے خلق کیا گیا ہے؟

حوزہ/عورت کی پسلی سے تخلیق کی شہرت ایک بے بنیاد اور مسلمانوں کے عقائد و افکار میں "اسرائیلیات" کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ کفار، مشرکین، بت پرست، طاغوت پرست اور مجموعی طور پر جاہل متعصب اور مستکبر لوگوں نے ہر دین میں (یہودیت اور پھر مسیحیت میں بھی) نفوذ کیا اور یہ نفوذ اس قدر گہرا ہوا کہ آسمانی کتابوں میں شرک آلود عقائد داخل کر دیے گئے۔

تحریر:مولانا سید شہروز زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| عورت کی پسلی سے تخلیق کی شہرت ایک بے بنیاد اور مسلمانوں کے عقائد و افکار میں "اسرائیلیات" کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ کفار، مشرکین، بت پرست، طاغوت پرست اور مجموعی طور پر جاہل متعصب اور مستکبر لوگوں نے ہر دین میں (یہودیت اور پھر مسیحیت میں بھی) نفوذ کیا اور یہ نفوذ اس قدر گہرا ہوا کہ آسمانی کتابوں میں شرک آلود عقائد داخل کر دیے گئے۔

یہاں تک کہ خدا کو جسمانی وجود دیا گیا، اسے بھول جانے والا کہا گیا، خلقت پر پشیمان ہونے والا بتایا گیا، اور اسے "خدا کا باپ" اور "خدا کا بیٹا" تک کہا گیا۔ یہ خرافات آج کی توریت اور انجیل میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان بھی اس مہلک آفت سے محفوظ نہ رہ سکے بلکہ دیگر ادیان اور مکاتب کی نسبت سب سے زیادہ حملے اور سازشوں کا شکار ہوئے۔ اگرچہ قرآن کریم محفوظ ہے اور تحریف سے بچا ہوا ہے، لیکن اس کی آیات کی تفسیر میں غلط تاویلات کی گئیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں احادیث گھڑ لی گئیں اور سب سے بدتر یہ کہ بت پرستوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے خرافات کو مسلمانوں کی ثقافت میں داخل کر کے ان پر مسلط کیا گیا۔ یہ خرافات زندگی کے عام مسائل سے لے کر معرفت کے اہم ترین موضوعات تک پھیلے ہوئے ہیں، جیسے کہ خدا شناسی، معاد شناسی، اسلام شناسی، قرآن شناسی، انسان شناسی وغیرہ۔

مثال کے طور پر ہتھیلی میں خارش کو روزی کی علامت سمجھنا، نظر بد سے بچنے کے لیے کالا ٹیکا لگانا ، مذاہب میں خود ساختہ احکام اور معارف، اشاعرہ اور معتزلہ کے جبر اور تفویض کے نظریات، یہاں تک کہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں (وہابیت) کے عقائد میں خدا کو جسمانی شکل دینا بھی انہی نفوذ شدہ خرافات کی مثالیں ہیں، جنہیں "اسرائیلیات" کہا جاتا ہے۔

عورت کی خلقت:

عورت انسان ہے اور انسان ایک ہی نوع میں پیدا کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ایک کلی اصول کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے "زوج اور زوجہ" یعنی ہمسر بنیں اور ایک دوسرے کے لیے سکون و آرام کا سبب بنیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ نے ان کے درمیان محبت، رحمت اور عشق رکھا ہے، اور اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تفکر کی ضرورت ہے: وَمِنْ اٰيَاتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُـوٓا اِلَيْـهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّّرَحْـمَةً ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ

ترجمہ: "اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقیناََ ان میں نشانیاں ہیں۔"(سورہ روم آیت ۲۱)

پس حضرت آدم ؑ پہلے بشر اور مذکر تھے، اور اللہ نے عورت کو بھی پیدا فرمایا، جس طرح آدم کو پیدا فرمایا تھا، تاکہ وہ آدم کے لیے ہم دم، مونس اور ہمسر بنے۔ اس کے ساتھ ہی نسلِ انسانی کے تسلسل اور افزائش کی بھی بنیاد رکھی گئی۔

پس ابتدا میں ایک مرد پیدا کیا گیا اور پھر ایک عورت، اور دونوں کو اللہ نے آزاد اور خود مختار طریقے سے مٹی سے پیدا فرمایا: يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ

ترجمہ: "اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔"(سورہ حجرات، آیت ۱۳)

قرآن کریم میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ عورت کو مرد کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ حوا کو اسی مٹی سے پیدا کیا گیا، جس سے آدم کو پیدا کیا گیا تھا اور اللہ نے سب کو ایک نفسِ واحدہ سے پیدا فرمایا۔

خلقتِ زن کے بارے میں ادیان، مذاہب اور مکاتبِ فکر میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ اکثر ادیان اور مکاتب میں عورت کو نہ صرف مرد کے مقابلے میں اضافی اور غیر ضروری مخلوق سمجھا گیا، بلکہ اسے حقیر اور مزاحم بھی تصور کیا گیا۔

یہی انتہا پسندانہ انحرافات "فیمنزم" جیسی تحریکوں کے جنم لینے کا سبب بنے۔

۱۔ افلاطون کے مطابق: "انسان ابتدا میں دو حصوں میں تقسیم نہیں تھا، بلکہ گناہ کرنے کے بعد وہ خدا کے غضب کا شکار ہوا اور نر اور مادہ (مرد اور عورت) میں تقسیم کر دیا گیا۔"

(کتاب: زن در آئینہ تاریخ، علی اکبر علویقی، صفحہ ۱۰)

۲۔ عورت کے آدم کی بائیں پسلی سے پیدا ہونے کی بات سب سے پہلے توریت میں ایک مذہبی عقیدے میں تبدیل ہوئی:

"خدا نے آدم کو زمین کی مٹی سے بنایا، اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور آدم ایک زندہ جان بن گیا... خدا نے کہا: یہ اچھا نہیں کہ آدم تنہا رہے، پس میں اس کے لیے ایک مددگار پیدا کروں... آدم کے لیے کوئی مددگار نہ پایا گیا۔ تب خداوند نے آدم پر گہری نیند طاری کی، اور جب وہ سو گیا، تو اس کی ایک پسلی نکال لی اور اس کی جگہ گوشت بھرا۔ پھر خدا نے اس پسلی سے ایک عورت کو بنایا اور اسے آدم کے پاس لے آیا۔ آدم نے کہا: یہ میری ہڈیوں کی ہڈی اور میرے گوشت کا گوشت ہے۔"

(توریت، کتاب پیدائش، باب دوم، ۷، ۱۸-۱۹، ۲۰-۲۴، اور باب سوم، ۲۰)

۳۔ مسیحیت میں، کیتھولک فرقے کا عقیدہ ہے کہ مرد کی روح عورت کی روح سے مختلف ہے، اور صرف حضرت مریمؑ ہی وہ واحد عورت ہیں جن کی روح مردوں کے برابر ہے، جبکہ باقی تمام عورتوں کی روح ایک درمیانی حالت میں ہے، یعنی انسان اور حیوان کے درمیان۔

(کتاب: زن در آئینہ تاریخ، صفحہ ۳۷)

یہ خرافات ایران کی جاہلانہ اور بت پرستانہ قدیم روایات میں بھی موجود تھیں، لیکن یہ یونان کی خرافات اور پھر تحریف شدہ توریت اور انجیل (اسرائیلیات) کے ذریعے مسلمانوں کے عقائد میں داخل ہو گئیں۔ افسوس کہ بعض شیعہ سنی کتب میں بھی ایسی روایات نقل ہوئی ہیں، لیکن جب ان کے راویوں کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل یہودی نژاد تھے، بعد میں اسلام قبول کر کے مفسر، محدث اور راوی بن گئے۔

ایک روایت کے مطابق جو امام باقر علیہ السلام سے تفسیرِ عیاشی میں نقل ہوئی ہے، حضرت حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیے جانے والی بات کو سختی سے رد کیا گیا ہے اور واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ حوا کو آدم کی باقی ماندہ مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔

ابو مقدام کہتے ہیں کہ: "میں نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اللہ نے حوا کو کس چیز سے پیدا کیا؟ آپ نے فرمایا: لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے حوا کو آدم کی بائیں پسلی سے پیدا کیا۔ آپؑ نے فرمایا: وہ جھوٹ کہتے ہیں۔کیا اللہ اس پر قادر نہیں تھا کہ حوا کو مستقل پیدا کرے؟ میں نے عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں، اے فرزندِ رسول، پھر حوا کو کیسے پیدا کیا گیا؟ آپ نے فرمایا: میرے والد نے اپنے والد اور اُن کے جد (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ اللہ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی اٹھائی اور اپنے دستِ راست سے، جس کا مطلب یُمن و برکت ہے (کیونکہ اللہ کے دونوں ہاتھ خیر اور برکت والے ہیں)، اس مٹی کو یکجا کیا اور اس سے آدم کو پیدا فرمایا اور پھر اسی باقی ماندہ مٹی سے حوا کو خلق کیا۔"

(بحار الانوار، علامہ مجلسی، جلد 11/16؛ تفسیر عیاشی، جلد 1، صفحہ 216)

لہٰذا، حضرت حوا سلام اللہ علیہا کو، جو کہ بشر تھیں اور عورت کے جنس سے تھیں، اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کی طرح بشر اور مرد کی جنس سے، خاک سے اور آزادانہ طور پر پیدا کیا گیا۔

عورت کو انسان کی حیثیت سے وہی قوانین اور حقوق حاصل ہیں جو مرد کو حاصل ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے حقوق نسواں کی جدید تفہیم) ،اور عورت اور مرد دونوں کی خلقت ایک ہی چیز سے ہوئی ہے۔ ان کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں پایا جاتا۔

قرآن کی نظر میں عورت اور مرد کی تخلیق مستقل ہے۔ جب تورات کے عہدِ عتیق کا مطالعہ کریں تو آدم اور حوا کی تخلیق کے بارے میں دو مختلف روایتیں ملتی ہیں۔ ایک روایت کہتی ہے کہ اصل چیز "وجودِ انسان" ہے اور اس میں مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ لیکن آج جو تصور مشہور ہے، وہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیق کا ڈھانچہ مختلف ہے اور دونوں الگ الگ جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ تورات اور انجیل کے موجودہ نسخوں میں عورت کو مرد سے پیدا کیا گیا بتایا گیا ہے، یعنی خدا نے مرد اور عورت کو بیک وقت پیدا نہیں کیا۔

یہاں تک کہ اس بات پر بھی بحث ہے کہ پہلا گناہ کس نے کیا؟ مسیحیت اور یہودیت کے عقیدے کے مطابق پہلا گناہ عورت نے کیا تھا۔ البتہ، مسیحیت محبت اور عشق کو بنیاد بناتی ہے۔ اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ قرآن میں "وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا" کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ عورت مرد کی جنس سے پیدا ہوئی ہے، نہ کہ مرد سے۔ قرآن کی رو سے مرد اور عورت دونوں کی تخلیق آزاد اور خودمختار ہے۔

یہودیت میں عورت کی کوئی آزاد شخصیت اور عزت نہیں ہے، نہ تخلیق میں اور نہ سماجی مقام میں۔ اس مذہب میں عورت اور بیٹی کو باعثِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔ مسیحیت میں محبت کے اصولوں پر مبنی سفارشات موجود ہیں اور عورتوں کے ساتھ نرمی کا حکم دیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی عورت کو ایک شیطانی اور شر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

اسلام میں عورت کے لیے روشن راستے کھولے گئے ہیں، جیسے قرآن نے بیٹیوں کے قتل کو حرام قرار دیا اور مختلف معاملات میں عورت اور مرد کو برابر قرار دیا۔ قرآن میں ان باتوں کی وضاحت اور تصریح کی گئی ہے، جو اسلام میں عورت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔

اسلام میں عورت کو تخلیقی لحاظ سے جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں میں اسی مادے سے پیدا کیا گیا ہے جس سے مرد کو پیدا کیا گیا۔ دونوں جنسوں کی حقیقت اور ماہیت ایک جیسی ہے اور ان کے درمیان خلقت میں کوئی امتیاز نہیں۔

لہٰذا عورت کی تخلیق مرد کی طرح ایک مستقل اور مساوی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ قرآنی تصور عورت اور مرد کی یکسانیت کو نمایاں کرتا ہے۔

اہل سنت مفسرین کی رائے ہے کہ "وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا" کا مطلب یہ ہے کہ حوا کو آدم کے جسم کے ایک حصے (دائیں یا بائیں پسلی) سے پیدا کیا گیا۔

تاہم، امام صادق علیہ السلام کی حدیث میں اس نظریے کی سختی سے تردید کی گئی ہے:

زرارہ نے سوال کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حوا آدم کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی، تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

"خدا ان باتوں سے پاک ہے، جو یہ گمان کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ خدا میں طاقت نہیں تھی کہ آدم کے لیے پسلی کے علاؤہ میں سے ایک شریک پیدا کرے۔ "

(من لا یحضرہ الفقیہ ج 3 ص 379-380، علل الشرائع ج 1 باب 17)

قرآن کریم عورت کو کسی بھی قسم کی تحقیر سے پاک قرار دیتا ہے جو تورات اور انجیل میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ عورت کی تخلیق مرد کے جسم کے کسی حصے سے ہوئی یا اس کا مقام مرد سے کم ہے۔

اسلام نے عورت کو کامل انسانی روح، ارادہ اور اختیار کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور اسے مرد کے برابر مقام دیا ہے۔ عورت اور مرد دونوں انسان ہیں اور اگر کوئی فضیلت ہے تو وہ اخلاقی اور روحانی کمالات کی بنیاد پر ہے، نہ کہ تخلیق کی بنیاد پر۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .