جمعہ 14 نومبر 2025 - 03:00
تاریخ نسواں | یونان و روم کے قدیم دور میں عورت کی بے بسی اور ظلم کی داستان

حوزہ/ روم اور یونان کے قدیم معاشروں میں عورتوں کو تابع، بےاختیار اور کم‌قدر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ ان کی زندگی کے تمام معاملات "خواہ ارادہ ہو، شادی، طلاق یا مال و جائیداد" سب مردوں کے اختیار میں تھے۔ اگر عورت کوئی نیکی کرتی تو اس کا فائدہ مردوں کو پہنچتا، لیکن اگر کوئی غلطی کرتی تو سزا خود اسے بھگتنی پڑتی۔ خاندان اور نسل کی بقاء صرف بیٹوں سے وابستہ سمجھی جاتی تھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ طباطبائیؒ، جو تفسیر المیزان کے مصنف ہیں، سورہ بقرہ کی آیات ۲۲۸ تا ۲۴۲ کی تفسیر میں "اسلام اور دیگر اقوام و مذاہب میں عورت کے حقوق، حیثیت اور سماجی مقام" پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔ ذیل میں ان کے بیانات کے خلاصے کا پانچواں حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

عورت، رومی معاشرے میں ایک "طفیلی وجود"

رومی معاشرت میں عورت کو ایک بےاختیار اور تابع وجود سمجھا جاتا تھا۔

اس کی زندگی مکمل طور پر مردوں کے زیرِ اثر تھی، اور اس کے فیصلوں اور ارادوں کی زمام اس کے گھر کے سربراہ کے ہاتھ میں ہوتی تھی — خواہ وہ اس کا باپ ہو، شوہر ہو، یا کوئی اور مردِ بزرگ۔

گھر کا سربراہ عورت کے ساتھ جو چاہتا، کر سکتا تھا: چاہے اسے بیچ دے، کسی کو تحفے میں دے دے، یا وقتی لذت کے لیے کسی دوسرے مرد کو عاریتاً پیش کر دے۔بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ مرد اپنے قرض یا مالی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے اپنی بہن یا بیٹی کو قرض خواہ کے حوالے کر دیتا۔

اگر عورت کوئی ناپسندیدہ حرکت کرتی تو اسے مار پیٹ کی جاتی، اور بعض اوقات قتل بھی کر دیا جاتا۔

عورت کی ملکیت پر بھی مردوں کا اختیار تھا۔ حتیٰ کہ اگر عورت کو مہر میں کچھ مال ملا ہو یا وہ اپنی اجازت سے کچھ کماتی ہو، اس پر بھی مرد قابض ہوتا۔

عورت کو وراثت کا حق حاصل نہ تھا، اور اس کی شادی یا طلاق کے تمام فیصلے مرد ہی کیا کرتے تھے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ روم میں عورت کی زندگی مکمل طور پر مردوں کے رحم و کرم پر تھی۔

یونان میں عورت کی حیثیت

یونان کی قدیم معاشرت میں عورت کی حالت بھی تقریباً رومی عورت جیسی ہی تھی۔

وہاں بھی خاندان اور معاشرے کی بنیاد مردوں پر رکھی گئی تھی، اور عورت کو صرف ایک تابع، کمزور اور محتاج مخلوق سمجھا جاتا تھا۔

عورت نہ اپنی مرضی سے کچھ کر سکتی تھی، نہ کسی معاملے میں آزادانہ فیصلہ کر سکتی تھی۔ وہ ہمیشہ کسی مرد کی سرپرستی میں رہتی۔

لیکن ان اقوام کے قوانین میں ایک عجیب تضاد پایا جاتا تھا:

اگر عورت کو اختیار اور آزادی سے محروم سمجھا جاتا تھا، تو پھر اس کی غلطیوں یا جرائم کی ذمہ داری بھی اس کے سرپرست پر ہونی چاہیے تھی۔

مگر ایسا نہیں تھا۔

یعنی اگر عورت کوئی نیک کام کرتی تو اس کا فائدہ مرد کو ملتا، لیکن اگر کوئی جرم کرتی تو سزا عورت کو ملتی۔

یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ ان قوموں کے نزدیک عورت کو کسی باشعور انسان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مضر، خطرناک اور ناپسندیدہ وجود کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جیسے کوئی وائرس جو سماج کی صحت کو خراب کر دے۔

البتہ چونکہ نسلِ انسانی عورت کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی تھی، اس لیے اسے "ضروری برائی" سمجھ کر برداشت کیا جاتا تھا۔

وہ عورت کو ایسا اسیر تصور کرتے جیسے کوئی شکست خوردہ دشمن جسے زندہ تو رکھا جائے مگر ہمیشہ قید میں اور زیرِ دست رہے۔

اگر وہ خطا کرے تو سخت سزا پائے، اور اگر نیکی کرے تو کسی تعریف کی مستحق نہ سمجھی جائے۔

صرف بیٹے ہی "نسل کے وارث"

یونان و روم کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خاندان کی بقا صرف مردوں سے ہے، اور صرف بیٹے ہی اصل اولاد ہیں۔اگر کسی شخص کے ہاں بیٹا نہ ہوتا تو اسے "اجاق بند" یا "نسل منقطع" تصور کیا جاتا۔

اسی عقیدے کے باعث فرزند خواندگی (تبنّی) کا رواج پیدا ہوا۔

جو مرد بیٹے سے محروم ہوتے، وہ کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا لیتے، تاکہ ان کی نسل جاری رہے۔

حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لڑکا کسی اور کا بیٹا ہے، پھر بھی اسے اپنا قانونی وارث مان لیتے اور اسے وراثت دیتے۔یہاں تک کہ اگر کسی مرد کو یقین ہو جاتا کہ وہ بانجھ ہے، تو وہ اپنے بھائی یا قریبی رشتہ دار سے کہتا کہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرے، تاکہ پیدا ہونے والا بچہ اس کا "قانونی بیٹا" شمار ہو اور خاندان باقی رہے۔

شادی اور طلاق کا نظام

یونان اور روم دونوں میں تعددِ ازدواج (ایک سے زیادہ شادیوں) کی اجازت تھی۔

البتہ یونان میں صرف ایک بیوی کو قانونی اور رسمی حیثیت حاصل ہوتی تھی، جبکہ باقی عورتیں غیر رسمی یا ثانوی حیثیت رکھتی تھیں۔

(ماخذ: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد دوم، صفحہ ۴۰۰ تا ۴۰۱)

(جاری ہے ....)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha