ہفتہ 15 نومبر 2025 - 05:00
تاریخِ نسواں | بیٹی کو ذلت، ناجائز بیٹے کو عزت

حوزہ/ اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں عورتوں کا کوئی اختیار، عزت یا حق نہیں تھا۔ وہ وراثت نہیں پاتیں، طلاق کا حق ان کے پاس نہیں تھا اور مردوں کو بے حد عدد میں بیویاں رکھنے کی اجازت تھی۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کیا جاتا اور لڑکی کی پیدائش کو باعثِ شرم سمجھا جاتا تھا۔ عورت کی زندگی اور اُس کی قدر و قیمت مکمل طور پر خاندان اور مردوں پر منحصر تھی۔ بعض اوقات زنا سے پیدا ہونے والے بچے بھی جھگڑوں اور تنازعات کا سبب بنتے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ طباطبائیؒ (صاحبِ تفسیر المیزان) نے سورۂ بقرہ کی آیات 228 سے 242 کی تفسیر میں "اسلام اور دیگر قوموں و مذاہب میں عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی مقام" پر گفتگو کی ہے۔ ذیل میں اسی سلسلے کا چھٹا حصہ پیش کیا جا رہا ہے:

عرب میں عورت کی حیثیت اور اُس دور کا ماحول

(وہی ماحول جس میں قرآن نازل ہوا)

عرب بہت پہلے سے جزیرۂ عرب کے خشک، بے آب و گیاہ اور شدید گرم علاقوں میں آباد تھے۔ ان میں سے زیادہ لوگ صحرانشین، خانہ بدوش اور تہذیب و تمدن سے دور تھے۔ ان کی گزر بسر زیادہ تر لوٹ مار اور اچانک حملوں پر ہوتی تھی۔

عرب ایک طرف شمال مشرق میں ایران سے، شمال میں روم سے، جنوب میں حبشہ کے شہروں سے اور مغرب میں مصر و سوڈان سے جڑے ہوئے تھے۔

اسی لیے ان کے رسوم و رواج میں جہالت اور وحشیانہ عادات غالب تھیں، اگرچہ یونان، روم، ایران، مصر اور ہندوستان کی بعض روایات کا اثر کبھی کبھار ان میں بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی

عرب عورت کو نہ زندگی میں کوئی اختیار دیتے تھے، نہ اس کی عزت و حرمت کے قائل تھے۔ اگر احترام ہوتا بھی تھا تو گھرانے اور خاندان کے نام کا، عورت کا ذاتی نہیں۔عورتیں وراثت میں حق نہیں رکھتی تھیں۔ ایک مرد جتنی چاہے بیویاں رکھ سکتا تھا. اس پر کوئی حد نہیں تھی، جیسے یہودیوں میں بھی یہ رواج موجود تھا۔ طلاق کا اختیار صرف مرد کے پاس تھا۔ عورت کو اس میں کوئی حق حاصل نہ تھا۔

بیٹی کا پیدا ہونا ننگ سمجھا جاتا تھا

عرب بیٹی کی پیدائش کو منحوس اور باعثِ شرم سمجھتے تھے۔ قرآن نے اسی رویے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "یَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِمَّا بُشِّرَ بِهِ" یعنی بیٹی کی خوشخبری سن کر باپ لوگوں سے چھپنے لگتا تھا۔

اس کے برعکس، بیٹے کی پیدائش پر خواہ وہ حقیقی ہو یا گود لیا ہوا بیٹا، وہ انتہائی خوش ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ اس بچے کو بھی اپنا بیٹا بنا لیتے تھے جو ان کے زنا کے نتیجے میں کسی شادی شدہ عورت سے پیدا ہوتا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ طاقتور افراد ایک ناجائز بچے پر جھگڑتے اور ہر شخص یہ دعویٰ کرتا کہ یہ بچہ میرا ہے۔

بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا

عرب معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا بھی عام تھا۔ اس خوفناک رسم کی ابتدا بنو تمیم قبیلے میں ہوئی۔ واقعہ یہ تھا کہ ان کا نعمان بن مُنذر سے جنگ ہوئی، جس میں ان کی کئی بیٹیاں اسیر ہوگئیں۔ یہ قبائلی غیرت برداشت نہ کر سکے اور غصے میں آکر فیصلہ کیا کہ آئندہ اپنی بیٹیوں کو خود قتل کریں گے تاکہ وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگیں۔

یوں یہ ظالمانہ رسم آہستہ آہستہ دوسرے قبائل میں بھی پھیل گئی۔

(ماخذ: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد 2، صفحہ 403)

(جاری ہے…)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha