حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم علامہ طباطبائیؒ، صاحبِ تفسیرِ المیزان، نے سورۂ بقرہ کی آیات ۲۲۸ سے ۲۴۲ کی تفسیر میں “اسلام اور دیگر اقوام و ادیان کی نظر میں عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی حیثیت” پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے۔ ذیل میں اس موضوع کا چوتھا حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
قدیم اقوام میں عورت کا مقام کلدانی، آشوری، رومی اور یونانی معاشرے
اب تک جن اقوام کا ذکر ہوا، ان کی رسم و رواج زیادہ تر مقامی عادات، وراثتی روایات اور معاشرتی ضرورتوں پر مبنی تھے، اور ان کے پاس کوئی الہامی کتاب یا مستند قانون نہیں تھا۔
لیکن بعض اقوام جیسے کلدانی، رومی اور یونانی ایسی تھیں جن کے معاشرے قانون یا مذہبی ضابطوں کے تابع تھے۔
کلدہ و آشور (قانونِ حمورابی کے زیرِ اثر)
کلدہ اور آشور میں حمورابی کے قوانین نافذ تھے۔ ان قوانین کے مطابق، عورت کو شوہر کی تابع قرار دیا گیا اور اسے ہر طرح کی خودمختاری سے محروم رکھا گیا۔
عورت نہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کر سکتی تھی، نہ ہی اپنے عمل میں آزاد تھی۔
اگر عورت شوہر کی اطاعت سے انکار کرتی یا کسی معاملے میں خود مختارانہ قدم اٹھاتی، تو شوہر کو حق حاصل تھا کہ اسے گھر سے نکال دے، دوسری شادی کر لے، یا حتیٰ کہ اپنی بیوی کے ساتھ غلام جیسا سلوک کرے۔
اگر عورت گھر کے انتظام میں کوتاہی کرتی، مثلاً خرچ میں زیادتی کر دیتی، تو شوہر قاضی کے سامنے شکایت درج کر سکتا تھا، اور اگر عورت کا قصور ثابت ہو جاتا، تو اسے پانی میں ڈبو کر مار دینے کی اجازت تھی۔
روم (قانون و اقتدار کا مرکز)
رومی تہذیب دنیا کی اُن قدیم اقوام میں سے ہے جنہوں نے سب سے پہلے مدنی قوانین مرتب کیے۔
ان کے پہلے قوانین تقریباً چار سو سال قبلِ مسیح بنائے گئے، جنہیں بعد میں بتدریج مکمل کیا گیا۔
ان قوانین نے “گھر” کو ایک چھوٹی سی ریاست کی حیثیت دی، جس میں گھر کا سربراہ "شوہر یا باپ" مطلق العنان حاکم سمجھا جاتا تھا۔
اس کے احکامات واجب التعمیل تھے، اور گھر کے تمام افراد "بیوی، بیٹے، بیٹیاں" اس کے تابع ہوتے تھے۔
یہ سربراہ اپنے اہلِ خانہ پر ایک طرح کی “ربوبیت” رکھتا تھا۔ جیسے وہ خود اپنے بچپن میں اپنے باپ اور اجداد کی پرستش کرتا تھا، اسی طرح گھر کے دیگر افراد اس کی اطاعت کو عبادت کے درجہ میں سمجھتے تھے۔ اس کی مرضی کو قانون کا درجہ حاصل تھا۔
اگر وہ سمجھتا کہ کسی بیٹے یا بیوی کو قتل کر دینا چاہیے، تو اس کے حکم کی نافرمانی ممکن نہ تھی۔ کوئی عدالت یا فرد اس کے فیصلے کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا تھا۔
روم میں عورت کی خاندانی حیثیت
روم کے معاشرے میں عورت خاندان کی رکن نہیں بلکہ تابع سمجھی جاتی تھی۔ خاندان کا دائرہ صرف مردوں تک محدود تھا — یعنی خاندانی نظام، وراثت، اور نسل کی نسبت صرف مردوں کے ذریعے چلتی تھی۔ عورتوں کا کوئی باہمی خاندانی رشتہ تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ نہ “بہن، بیٹی، یا چچازادی” کے مفہوم موجود تھے، نہ ہی عورت اور مرد کے درمیان قانونی قرابت تسلیم کی جاتی تھی، حتیٰ کہ بیوی اور شوہر کے درمیان بھی کوئی “خاندانی رشتہ” نہیں مانا جاتا تھا۔
اسی طرح بیٹے اور ماں، بیٹی اور باپ، بہن اور بھائی کے درمیان بھی وہ قانونی نسبت موجود نہ تھی جو وراثت یا خونی رشتے کا سبب بنتی ہے۔
روم میں صرف قدرتی تعلق یعنی ازدواجی ملاپ اور اولاد کی پیدائش کو مانا جاتا تھا، باقی تمام قانونی رشتے صرف مردوں کے درمیان قائم تھے۔
چونکہ عورتوں کا خاندانی درجہ تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، اس لیے بعض اوقات یہی صورت حرام رشتوں میں شادی کے جواز کا بہانہ بن جاتی۔
گھر کا سربراہ اپنی بیٹی سے شادی کر لیتا کیونکہ وہ ولی اور مالکِ اختیار تھا، اور بیٹی کو اپنی ملکیت تصور کرتا۔
(📘 ماخذ:ترجمہ تفسیر المیزان، جلد ۲، صفحہ ۳۹۵)
(جاری ہے....)









آپ کا تبصرہ