بدھ 12 نومبر 2025 - 05:00
تاریخِ نسواں | قدیم ایران، چین، مصر اور ہندوستان میں عورت کی زندگی

حوزہ/ قدیم ہندوستان میں عورتوں کو ایامِ حیض کے دوران ناپاک اور پلید سمجھا جاتا تھا، اور ان کے جسم یا ان کے استعمال کی ہوئی چیزوں کو چھونا بھی ناپاکی کا باعث مانا جاتا تھا۔ اس زمانے میں عورت کو نہ مکمل انسان سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی محض حیوان، بلکہ اسے ایک ایسی مخلوق تصور کیا جاتا تھا جو دونوں کے درمیان ہے۔ بےحق، دوسروں پر منحصر، اور ہمیشہ مردوں کی سرپرستی و نگرانی میں، جسے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر خودمختاری حاصل نہیں تھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تفسیر المیزان کے مصنف، مرحوم علامہ طباطبائیؒ نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۲۸ تا ۲۴۲ کے ذیل میں "اسلام اور دیگر اقوام و مذاہب میں عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی مقام" پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ذیل میں اس سلسلے کا تیسرا حصہ پیش ہے:

متمدن اقوام میں عورت کا مقام: چین، ایران، مصر اور ہندوستان

علامہؒ لکھتے ہیں کہ "متمدن اقوام" سے مراد وہ قومیں ہیں جو منظم رسوم و رواج اور موروثی عادات کے تحت زندگی گزارتی تھیں، اگرچہ ان کے یہ قوانین کسی آسمانی کتاب یا قانون ساز ادارے پر مبنی نہیں تھے۔ ایسی قوموں میں چین، ایران، مصر اور ہندوستان شامل ہیں۔

ان تمام اقوام میں عورت کے بارے میں ایک بات مشترک تھی:

عورت کو کسی قسم کی آزادی یا خودمختاری حاصل نہیں تھی، نہ اپنی مرضی میں، نہ اپنے اعمال میں۔

زندگی کے تمام معاملات میں وہ مرد کے زیرِ فرمان تھی۔ وہ کسی کام کا خود فیصلہ نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی اسے معاشرتی امور (جیسے حکومت، قضاوت یا کسی اور سماجی میدان) میں کوئی حق حاصل تھا۔

عورت پر ذمہ داریاں، بغیر کسی حق کے

اگرچہ عورت کو کوئی حق نہیں دیا گیا تھا، مگر اس پر مردوں جیسی تمام ذمہ داریاں ڈال دی گئی تھیں۔

وہ کھیتی باڑی، محنت، مزدوری، لکڑیاں کاٹنے اور دیگر کاموں کی پابند تھی۔ اس کے ساتھ گھر کے تمام امور اور بچوں کی دیکھ بھال بھی اسی کے ذمے تھی۔

اسے شوہر کی ہر بات اور ہر خواہش کے سامنے اطاعت کرنی لازم تھی۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ متمدن اقوام میں عورت کو نسبتاً بہتر زندگی حاصل تھی، کیونکہ وہ غیر متمدن قوموں کی طرح عورت کو قتل نہیں کرتے تھے، نہ اسے کھانے کی چیز سمجھتے تھے اور نہ اسے مکمل طور پر ملکیت سے محروم رکھتے تھے۔

عورت کسی حد تک ملکیت رکھ سکتی تھی، مثلاً وراثت یا ازدواجی اختیار، مگر اس کی یہ آزادی بھی حقیقی نہیں تھی؛ تمام فیصلے بالآخر مرد کے تابع تھے۔

تعددِ ازدواج اور سماجی امتیاز

ان معاشروں میں مردوں کو لامحدود تعداد میں بیویاں رکھنے کی آزادی تھی۔ مرد جب چاہے کسی عورت کو طلاق دے سکتا تھا، مگر عورت کو یہ حق نہیں تھا۔ شوہر کے مرنے کے فوراً بعد مرد نئی شادی کر لیتا، لیکن عورت شوہر کی وفات کے بعد نہ نکاح کر سکتی تھی، نہ ہی آزادانہ معاشرت رکھ سکتی تھی۔

اکثر عورتوں کو گھر سے باہر مردوں سے میل جول کی اجازت نہیں تھی۔

قومی رسوم اور عورت کے لیے مخصوص قوانین

ہر قوم نے اپنے جغرافیائی اور سماجی حالات کے مطابق عورت سے متعلق مخصوص رسمیں بنا رکھی تھیں۔

ایران میں:

ایران میں طبقاتی فرق بہت نمایاں تھا۔ اعلیٰ طبقے کی عورتوں کو کبھی کبھار حکومت یا سلطنت میں حصہ لینے کا حق ملتا تھا۔

ان میں یہ رسم بھی تھی کہ وہ اپنے قریبی محرم، مثلاً بھائی یا بیٹے سے بھی شادی کر سکتی تھیں، لیکن نچلے طبقے کی عورتوں کو ایسا کوئی حق حاصل نہ تھا۔

چین میں:

چین میں نکاح کو خودفروشی کی ایک صورت سمجھا جاتا تھا۔ عورت جب شادی کرتی تو گویا اپنی پوری آزادی بیچ دیتی تھی۔ چنانچہ وہاں کی عورتیں ایرانی عورتوں کی نسبت زیادہ بےاختیار تھیں۔

وہ وراثت سے محروم تھیں، اور حتیٰ کہ اپنے شوہر یا بیٹوں کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

مزید یہ کہ بعض مواقع پر دو یا زیادہ مرد ایک ہی عورت سے شادی کر لیتے تھے، اور وہ عورت ان سب کی خدمت اور ضروریات پوری کرتی تھی۔

اگر اس سے بچہ پیدا ہوتا تو اسے عام طور پر اس مرد کا بیٹا سمجھا جاتا جس سے وہ زیادہ مشابہت رکھتا تھا۔

ہندوستان میں عورت کی حیثیت

ہندوستان میں عورت کی حالت اور بھی افسوسناک تھی۔ وہاں یہ عقیدہ تھا کہ عورت، شوہر کے جسم کا ایک حصہ ہے۔ اسی لیے شوہر کے مرنے کے بعد عورت کے لیے دوبارہ شادی حرام سمجھی جاتی تھی، بلکہ رواج یہ تھا کہ عورت کو بھی شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی عورت زندہ رہ بھی جاتی تو ساری زندگی ذلت اور تنہائی میں گزارتی۔

ہندوستان میں حیض کی حالت میں عورت کو ناپاک اور پلید سمجھا جاتا تھا۔ اس کے لباس، برتن اور جو چیزیں وہ چھو لے، سب ناپاک سمجھی جاتی تھیں۔

نتیجہ: عورت، نہ انسان نہ حیوان

علامہ طباطبائیؒ کے بقول، ان اقوام میں عورت کی حیثیت کچھ یوں تھی کہ وہ نہ مکمل انسان سمجھی جاتی تھی، نہ ہی بالکل حیوان۔

بلکہ وہ ایک درمیانی مخلوق تھی، ایسی ہستی جو خود کوئی حق نہیں رکھتی تھی، بلکہ دوسروں کی خدمت کے لیے پیدا ہوئی تھی۔

عورت کا مقام ایک نابالغ بچے کی طرح تھا، جو انسانوں کی خدمت تو کر سکتا ہے، مگر خود آزاد نہیں ہوتا۔

فرق صرف اتنا تھا کہ بچہ جوان ہونے پر آزادی پا لیتا تھا، مگر عورت ساری عمر کسی نہ کسی کی زیرِ ولایت رہتی تھی کبھی باپ کی، کبھی شوہر کی، اور کبھی بیٹے کی۔

(ماخذ:ترجمہ تفسیر المیزان، جلد ۲، صفحہ ۳۹۵)

(جاری ہے...)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha