حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ طباطباییؒ (مصنفِ تفسیر المیزان) نے سورۂ بقرہ کی آیات 228 تا 242 کی تفسیر میں ’’اسلام، دیگر مذاہب اور اقوام میں عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی مقام‘‘ پر روشنی ڈالی ہے۔ ذیل میں اسی بحث کا ساتواں حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
عرب معاشرے میں عورت کا مقام
علامہ طباطبائیؒ لکھتے ہیں کہ عرب معاشرے میں چند ایسے خاندان بھی تھے جو اپنی بیٹیوں کو شادی کے معاملے میں کچھ حد تک اختیار دیتے تھے، یعنی ان کی رضایت اور انتخاب کا احترام کیا جاتا تھا۔ یہ رویہ زیادہ تر ان خاندانوں میں پایا جاتا تھا جو ایرانی اشرافیہ کے طبقاتی طریقوں سے متاثر تھے۔
مجموعی طور پر عربوں کا عورتوں کے ساتھ برتاؤ تہذیب یافتہ اور وحشی قبائل کے رویوں کا ایک عجیب امتزاج تھا۔
عورتوں کو قانونی اختیارات نہ دینا
انہیں سیاسی اور سماجی معاملات "مثلاً حکومت، جنگ، یا حتیٰ کہ اپنے نکاح" میں شریک نہ کرنا۔
یہ سب اُن اثرات میں سے تھا جو عربوں نے روم اور ایران جیسی طاقتور قوموں سے لیے تھے۔
جبکہ:عورتوں کو قتل کرنا، زندہ درگور کرنا یا اُن پر سختیاں اور مظالم ڈھانا۔ یہ رویے انہوں نے وحشی اور بربری قبائل سے اختیار کیے تھے۔
پس عورت کی محرومی کا تعلق گھر کے سربراہ کی خدائی سے نہیں تھا، بلکہ طاقتور کا کمزور کو دبا لینے اور اسے اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کا نتیجہ تھا۔
قبائل کا عجب عقیدہ: ‘‘اپنے خدا کو کھا جانا’’
عرب معاشرہ مجموعی طور پر بت پرست تھا۔ مرد و عورت دونوں بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ان قوموں کا اعتقاد ستاروں اور فرشتوں کے بارے میں وہی تھا جو قدیم صابئین رکھتے تھے۔ مختلف قبائل اپنے ذوق اور خواہش کے مطابق الگ الگ بت تراشتے تھے۔
کئی قبائل ستاروں اور فرشتوں (جنہیں وہ خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے) کی مورتیں بناتے اور انہیں پوجتے تھے۔ بت کبھی پتھر، کبھی لکڑی اور کبھی مٹی کے ہوتے تھے۔
صورتِ حال اس حد تک پہنچ گئی کہ قبیلہ بنی حنیفہ نے قحط کے دور میں کھجور، کشک، چربی اور آٹے سے ایک بت بنا لیا اور اسے سالوں پوجتے رہے۔ لیکن جب شدید بھوک لگی تو اپنا ہی "خدا" کھا گئے!
اس واقعے پر ایک شاعر نے یوں طنز کیا: ‘‘قبیلہ بنی حنیفہ نے قحط کے زمانے میں اپنے پروردگار کو کھا ڈالا؛۔ نہ اپنے معبود سے ڈرے اور نہ ہی اس انجامِ بد سے خوف کھایا۔’’
بعض قبائل جب نیا خوبصورت پتھر دیکھ لیتے تو پہلے والے بت کو چھوڑ کر نئے کو خدا بنا لیتے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اگر کچھ نہ ملے تو مٹی کا ڈھیلا بنایا، اُس پر بکری کا دودھ دوہا اور فوراً اُس کے گرد طواف شروع کر دیا!
عورتوں کی فکری کمزوری اور خرافات کا فروغ
اس سماجی ظلم اور محرومی نے عورتوں میں شدید ذہنی کمزوری پیدا کر دی تھی۔ وہ طرح طرح کے وہم و گمان اور خرافات کا شکار ہو گئیں۔ تاریخی کتابوں میں ایسی بے شمار مثالیں درج ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اُس دور میں عورتیں حادثات اور روزمرہ زندگی کے واقعات کے بارے میں عجیب و غریب تصورات رکھتی تھیں۔
یہ تھا زمانۂ جاہلیت اور اسلام کے ظہور سے پہلے مختلف قوموں کے معاشروں میں عورت کی حالت کا ایک مختصر خاکہ۔
(ماخذ: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد 2، صفحہ 404)
(جاری ہے…)









آپ کا تبصرہ