اتوار 23 نومبر 2025 - 08:35
تاریخِ نسواں | عورت اور اس کی ذمہ داریاں: فطری صلاحیتوں کے مطابق، نہ کہ صنفی امتیاز کی بنیاد پر

حوزہ/ اسلام عورت کو زیادہ تر عبادتی اور سماجی احکام میں مرد کے برابر قرار دیتا ہے، اور جو فرق موجود ہیں وہ عورت کی فطری ساخت کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں، جیسے وراثت، قضاوت، جہاد اور حجاب کے مسائل۔ اس کے مقابلے میں نان و نفقہ اور حفاظت کی ذمہ داری مرد پر رکھی گئی ہے۔ تعلیم، ملازمت اور سماجی سرگرمیاں عورت پر واجب نہیں، مگر اگر وہ انجام دے تو یہ ایک پسندیدہ فضیلت شمار ہوتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مرحوم علامہ طباطبائیؒ، صاحبِ تفسیر المیزان، نے سورہ بقرہ کی آیات 228 سے 242 کے ذیل میں "اسلام اور دیگر مذاہب میں عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی مقام" کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔ ذیل میں اس سلسلے کا بارہواں حصہ پیش کیا جاتا ہے۔

عورت اور مرد کے مخصوص اور مشترک احکام

اسلام میں وہ احکام جو عورت اور مرد دونوں کے لیے مشترک ہیں، اور وہ جو کسی ایک کے لیے مخصوص ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے:

اسلام میں عورت تمام عبادتی احکام اور سماجی حقوق میں مرد کی شریک ہے۔ وہ بھی مرد کی طرح اپنی زندگی کے معاملات میں مستقل حیثیت رکھتی ہے۔

اور مرد کے مقابلے میں کوئی کمی نہیں رکھتی۔

نہ وراثت میں، نہ تجارت و خرید و فروخت میں، نہ تعلیم و تعلم میں، نہ اپنے حق کے حصول میں، نہ اپنے حق کے دفاع میں، اور نہ ہی دیگر شرعی احکام میں…

سوائے چند امور کے جو عورت کی فطری ساخت کے مطابق مختلف رکھے گئے ہیں۔

ان چند مخصوص احکام میں:

حکومت و قضا (قانونی فیصلہ)

جنگ اور دشمن سے حملہ

وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہونا حجاب اور جسم کے زیبائش والے حصوں کو چھپانے کا حکم

اور شوہر کی اطاعت، لیکن صرف ازدواجی تعلقات اور جنسی تمتع کے معاملات میں شامل ہیں۔

اس کے مقابلے میں اسلام نے عورت کو ان ذمہ داریوں سے رہا کر کے بہت سے حقوق سے نوازا ہے:

اس کا نان و نفقہ، یعنی گھریلو خرچ، والد یا شوہر کی ذمہ داری قرار دیا۔

شوہر پر لازم کیا کہ وہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ بیوی کی حفاظت اور کفالت کرے۔

اولاد کی تربیت اور پرورش کے حق کو عورت کے سپرد کیا۔

اس کی جان، عزت اور آبرو کی حفاظت کو قانوناً یقینی بنایا۔

حالتِ حیض اور نفاس میں اس سے عبادتیں ساقط کر دیں۔

زندگی کے ہر مرحلے میں اس کے ساتھ آسانی اور رعایت کو ضروری قرار دیا۔

عورت اور مرد کے مشترک و مخصوص احکام: ایک خلاصہ

ان تمام امور سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عورت پر اصولی دینی معارف اور عملی احکام سیکھنا واجب ہے، جیسا کہ مرد پر لازم ہے۔

عملی ذمہ داریوں میں بھی عورت انہی عبادات و احکام کی پابند ہے جن کی پابندی مرد پر ہے۔

البتہ عورت پر یہ اضافی ذمہ داری ہے کہ وہ ازدواجی زندگی میں صرف جنسی معاملات میں اپنے شوہر کی فرمانبردار ہو۔

گھر اور معاشرتی ذمہ داریاں

روزی کمانا،صنعت و تجارت میں مصروف ہونا،گھر کے سارے امور سنبھالنا یا معاشرے کے اجتماعی معاملات میں عملی شرکت،یونیورسٹی جانا یا کوئی مفید پیشہ اختیار کرنا، ان میں سے کوئی بھی کام عورت پر واجب نہیں۔

اگر عورت کسی علمی، معاشرتی یا پیشہ ورانہ میدان میں جاتی ہے تو یہ اس کا ذاتی فضل، سماج پر احسان اور اس کے لیے باعثِ فخر ہے، اور اسلام نے عورت کو اس طرح کے فخر کی اجازت دی ہے۔

مردوں کے بارے میں یہ اجازت نہیں کہ وہ ایسے کاموں پر فخر جتائیں، سوائے جہاد کے موقع پر۔

رسول اکرم(ص) کی سنت بھی ایسا ہی تھی۔

اگر بحث طولانی نہ ہو جاتی تو ہم حضور اکرم(ص) کا اپنی زوجۂ محترمہ حضرت خدیجہؑ، اپنی دختر حضرت فاطمہؑ، ازواج مطہرات اور امت کی خواتین کے ساتھ طرزِ عمل، اور امیر المؤمنینؑ کی صاحبزادی حضرت زینبؑ، امام حسینؑ کی بیٹیاں فاطمہ و سکینہؑ اور دیگر خواتینِ اہل بیتؑ کے حالات بھی پیش کرتے۔

اسی طرح عورتوں کے حقوق اور ان کے بارے میں رسول اللہ (ص) کی وصیتوں پر مشتمل روایات بھی ذکر کرتے۔ممکن ہے سورۂ نساء کی آیات سے متعلق روایتی مباحث میں ان حوالوں کی تفصیل آئے۔

قارئین مزید معلومات کے لیے تفسیر المیزان کے اگلے جلدوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ماخذ: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد ۲، صفحہ ۴۱۲

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha