جمعہ 3 جنوری 2025 - 06:00
اسلام کے نام پر بنے ملک میں ظالمانہ حکمرانی قرآن و سنت کے برخلاف

حوزہ/جب کسی ملک کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی جائے، تو اس پر حکمرانی کرنے والوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق عدل و انصاف کو یقینی بنائیں، لیکن اگر حکمران اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں اور ملک میں ظلم و جبر کا رواج قائم کریں اور عوام کے حقوق پامال کریں، تو ان کا انجام نہ صرف دنیا میں عبرتناک ہوتا ہے، بلکہ آخرت میں انہیں سخت حساب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| جب کسی ملک کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی جائے، تو اس پر حکمرانی کرنے والوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق عدل و انصاف کو یقینی بنائیں، لیکن اگر حکمران اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں اور ملک میں ظلم و جبر کا رواج قائم کریں اور عوام کے حقوق پامال کریں، تو ان کا انجام نہ صرف دنیا میں عبرتناک ہوتا ہے، بلکہ آخرت میں انہیں سخت حساب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ بارہا ظلم سے باز رہنے کا حکم فرما رہا ہے اور ظالموں کے لیے سخت انجام کی وعید دے رہا ہے کہ ظلم، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو، اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔

> "إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلظَّـٰلِمِينَ"

بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

جب خداوند متعال ظلم کو پسند نہیں فرماتا تو آخر کیا آپ کو خوف خدا نہیں ہے یاد رکھیں ظالم حکمرانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن ضرور ملے گا، چاہے انہیں دنیا میں مہلت دی جائے۔

> "وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱللَّهَ غَـٰفِلًا عَمَّا يَعْمَلُ ٱلظَّـٰلِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍۢ تَشْخَصُ فِيهِ ٱلْأَبْصَـٰرُ" "اور ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل ہے، وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔"

نہج البلاغہ، وہ کتاب ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی حکمت و بصیرت کا خزانہ ہے، حکمرانوں کے لیے عدل و انصاف کے اصول اور ظلم کے نتائج کو تفصیل سے بیان کررہی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:> "عدل حکومت کو قائم رکھتا ہے اور ظلم حکومت کو برباد کر دیتا ہے۔"(نہج البلاغہ، حکمت 437)

یہ جملہ ہر حکمران کے لیے ایک اصول ہے کہ اگر وہ اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے تو اسے عدل و انصاف کو اپنانا ہوگا جس میں عدل و انصاف ہو۔کیونکہ ظلم و جبر کے نتائج بے حد عبرتناک ہوتے ہیں ایک اور جگہ امام فرماتے ہیں:> "جو حکمران ظلم کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں، وہ اپنے زوال کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔"(نہج البلاغہ، خطبہ 192)

یہ قول اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ظلم نہ صرف حکمرانوں کے اقتدار کو ختم کرتا ہے بلکہ انہیں عوام کی نظر میں بھی ذلیل کر دیتا ہے۔جو کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں جو عزت و احترام حکمرانوں اور صاحب اقتدار لوگوں کا عوام کی نگاہ میں چند سال پہلے تک تھا وہ آج نہیں ہے انہوں نے اپنے ظلم و بربریت سے بھرے اعمال سے عوام کے سامنے اپنی عزت کو کھو دیا۔

جب حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کو گورنر بنایا تو انہیں ایک خط دیا جس میں لکھا:> "حکومت تمہارے لیے ایک شکار نہیں، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ایک امانت ہے۔ اس میں انصاف کرو اور اپنے عوام کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کرو۔"(نہج البلاغہ، خط نمبر 53)

یہ ہدایت ہر حکمران کو یاد دلاتی ہے کہ اقتدار عیش و عشرت کے لیے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے ہے۔

اسلامی تعلیمات اور تاریخ اس بات کی گواہ ہیں کہ ظلم پر مبنی حکومت کبھی دیرپا نہیں رہتی۔ فرعون، نمرود اور یزید جیسے ظالم حکمرانوں کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ ایک ظالم حکمران نہ صرف دنیا میں اپنی عزت کھو دیتا ہے بلکہ آخرت میں بھی شدید عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے:

> "وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ"

"اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔"

آخر کلام اس بات کو کہنا میں اپنا فریضہ شرعی سمجھتا ہوں کہ اسلام کے نام پر بنے ملک میں حکمرانی کرنا ایک عظیم ذمہ داری ہے، جس کے لیے قرآن و نہج البلاغہ جیسے مقدس متون سے رہنمائی لینا ضروری ہے۔ ظلم صرف عوام کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور حکمران کو اللہ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا، حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدل و انصاف کو اپنی حکومت کا شعار بنائیں، عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور ظلم و جبر سے مکمل اجتناب کریں۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ. اور ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ کر جائیں گے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha