تحریر : مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| بلوچستان کے پسماندہ علاقے ڈیرہ اللہ یار کی مٹی سے جڑا ہوا نام، جمعہ خان، عزم، محبت اور عقیدت کا استعارہ ہے۔ ایک ایسا شخص جو اپنی بے لوث خدمت اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعے اس علاقے کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ جمعہ خان کی زندگی ایک ایسی کہانی ہے جو یہ سکھاتی ہے کہ ایک فرد کا خلوص اور قربانی کس طرح ایک معاشرے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ان کی بے مثال محنت نے نہ صرف ڈیرہ اللہ یار میں عزاداری کی بنیاد رکھی بلکہ وہاں کے باسیوں کو ایک نئی روحانی و معنوی سمت بھی عطا کی۔
ڈیرہ اللہ یار جیسے علاقے میں، جہاں عزاداری کا کوئی منظم نظام موجود نہیں تھا، جمعہ خان نے اپنی تنہا جدوجہد سے امام حسینؑ کی محبت کی شمع روشن کی۔ پولیس میں سپاہی کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ، انہوں نے عزاداری کی روایت کو فروغ دینے کا بھی عزم کیا۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ اکیلے علمِ عباس (ع) لے کر ایک مقررہ راستے پر چلتے، یوں عزاداری کا آغاز کیا۔ ان کی اس خالص نیّت اور لگن نے دیکھتے ہی دیکھتے علاقے کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس سفر کی پہلی منزل ایک امام بارگاہ کی تعمیر تھی، جو آج بھی اس علاقے میں امام حسینؑ کے غم کو زندہ رکھنے کا مرکز ہے۔
جمعہ خان کا کارنامہ صرف امام بارگاہ کی تعمیر تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے علاقے میں ایک جامع مسجد کی تعمیر کی بنیادیں بھی فراہم کیں۔ یہ مسجد نہ صرف عبادت کا مقام بنی بلکہ لوگوں کے لیے اجتماع اور سماجی ہم آہنگی کا ذریعہ بھی ثابت ہوئی۔ یہاں پانچ وقت کی نماز کے علاوہ، جمعہ کی نماز اور دیگر مذہبی و تعلیمی سرگرمیاں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ ان کا خواب تھا کہ یہ جگہ لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا مرکز بنے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔
محرم الحرام اور چہلم امام حسینؑ کے ایام میں ڈیرہ اللہ یار میں جو مجالس اور جلوس ہوتے ہیں، وہ جمعہ خان کی انتھک محنت اور خالص عقیدت کا مظہر ہیں۔ انہوں نے عزاداری کی ایسی بنیاد رکھی کہ آج یہ روایت نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہر سال پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ ان کی جدوجہد نے علاقے کے لوگوں کو امام حسینؑ کے پیغام، یعنی حق و صداقت کی سربلندی اور ظلم کے خلاف قیام کی اہمیت سے روشناس کرایا۔
جمعہ خان کی شخصیت اپنی ذات میں ایک درسگاہ تھی۔ وہ نہایت سادہ مزاج، محبت کرنے والے اور علمائے کرام کے قدر دان تھے۔ ان کی درویش صفت طبیعت اور بے لوث خدمت نے انہیں لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے جگہ دی۔ نوجوانوں کو حوصلہ دینا، دین کی خدمت کے لیے ان کی رہنمائی کرنا اور ان کے مسائل میں ساتھ دینا ان کے نمایاں اوصاف تھے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ امام حسینؑ کے پیغام کی خدمت میں گزرا اور یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔
میری ان سے پہلی ملاقات 2020ء میں اس وقت ہوئی جب میں زہرا اکیڈمی کراچی کی جانب سے تبلیغی مشن پر ڈیرہ اللہ یار گیا۔ ان سے مل کر جو محبت، خلوص اور عزاداری سے ان کی وابستگی دیکھی، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی گفتگو، ان کا انداز اور ان کا ہر عمل دینِ اسلام اور عزاداری کے لیے ان کی گہری محبت کا آئینہ دار تھا۔ ان کی موجودگی سے دل کو سکون ملتا تھا اور ان کے جانے کا غم آج ایک خلا کی صورت میں محسوس ہو رہا ہے۔
آج جب جمعہ خان ہم میں نہیں رہے، ان کی خدمات اور یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان کی محنت اور قربانیوں نے ڈیرہ اللہ یار کو ایک نئی شناخت دی ہے اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کی کہانی یہ سکھاتی ہے کہ اگر نیّت خالص ہو اور مقصد واضح، تو کوئی بھی مشکل راستہ کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتا۔ ان کی وفات نے پورے علاقے کو ایک گہرے صدمے میں مبتلا کر دیا ہے اور ان کی جگہ بھرنا شاید ممکن نہ ہو؛ لیکن ان کا ورثہ اور ان کے دیے ہوئے سبق ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گے۔
جمعہ خان کی زندگی ایک مثال ہے کہ ایک فرد کی کوششیں، چاہے کتنی ہی محدود کیوں نہ ہوں، ایک پورے معاشرے کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ ان کی سادگی، خلوص اور امام حسینؑ کے عشق نے نہ صرف ان کی اپنی زندگی کو بلکہ پورے علاقے کو روشن کر دیا۔ ان کی یاد ہمیں ہمیشہ یہ پیغام دیتی رہے گی کہ قربانی اور اخلاص کے ساتھ کی گئی خدمت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
آپ کا تبصرہ