تحریر : مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| دینِ اسلام ایک ایسا طرزِ زندگی پیش کرتا ہے، جو ہر زمانے اور ہر معاشرے کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ قرآنِ مجید کے احکامات اور انبیاء کی تعلیمات ہمیں ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کا ہنر سکھاتی ہیں، جو ایک دیندار انسان کو درپیش ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم مسئلہ دینداری پر استہزاء اور تمسخر کا ہے، جس کا سامنا ہر زمانے میں انبیاء، اولیاء اور دیندار افراد کو رہا ہے۔
سورۂ مبارکۂ یٰسین کی آیت 30 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ.
ہائے افسوس! ان بندوں پر جن کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے ساتھ انہوں نے تمسخر کیا۔
یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تمسخر اور استہزاء ایک ایسا عمل ہے جو ہمیشہ سے دین کے خلاف رہا ہے۔ انبیاء کرام، جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے پیغامِ حق لے کر آئے، انہیں بھی ان کے دور کے کم ظرف افراد نے مذاق کا نشانہ بنایا۔
آج کے معاشرے میں حجاب جیسی بنیادی دینی اقدار پر عمل کرنے والے افراد کو بھی تمسخر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض افراد حجاب نہ کرنے کے لیے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ معاشرہ ایسے افراد کو ہدفِ مذاق بنا دیتا ہے؛ لیکن قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ مؤمنین ہمیشہ سے اس قسم کی آزمائشوں کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان آزمائشوں کے باوجود اپنے عقائد اور عمل پر قائم رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔
دین پر استقامت وہ عمل ہے جو ایک مؤمن کو دنیا میں سربلند اور آخرت میں کامیاب بناتا ہے۔ تمسخر اور استہزاء کے خوف سے دینداری کو ترک کر دینا کمزوری کی علامت ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں، انہیں دنیاوی مخالفتوں اور مذاق سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ انبیاء کرام نے اپنی زندگیوں سے ہمیں یہ سبق دیا کہ تمسخر کو برداشت کرنا اور دین پر ثابت قدم رہنا ہی حقیقی ایمان کی علامت ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک، ہر نبی کو ان کے دور کے افراد نے استہزاء کا نشانہ بنایا؛ لیکن انبیاء کرام نے کبھی بھی اپنی دعوت سے پیچھے ہٹنے کا سوچا تک نہیں۔ ان کی ثابت قدمی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ دین پر عمل کے راستے میں تمسخر کو برداشت کرنا ایمان کی آزمائش ہے۔
آج جب دنیا مادیت پرستی کی طرف بڑھ رہی ہے، دین پر استہزاء عام ہو چکا ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ دین پر عمل کرنے والے افراد ہمیشہ اپنی راہ میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں؛ لیکن یہی مشکلات ان کے لیے ترقی اور بلندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔
قرآن اور انبیاء کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ تمسخر سے خوفزدہ ہو کر اپنے دینی اصولوں کو ترک کرنا ہماری ناکامی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ دنیا ایک آزمائش گاہ ہے اور تمسخر جیسے رویے اس آزمائش کا حصہ ہیں۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ ان آزمائشوں کے باوجود ہم اپنے عقائد اور اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہیں۔
"دنیا کے تمسخر سے نہ گھبرائیں، بلکہ اس کو اپنے ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ بنائیں۔ یہی قرآنی طرزِ زندگی کا اصل درس ہے۔
دینداری پر استقامت دکھانے والے افراد نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں سکون اور اطمینان حاصل کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مضبوط عقائد رکھنے والے افراد نے دنیا میں عدل، مساوات اور انسانی فلاح کے اصولوں کو پروان چڑھایا۔ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ استقامت کی بہترین مثال ہے۔ آپ کو طائف میں سنگباری اور مکہ میں مشرکین کے تمسخر آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑا؛ لیکن آپ نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا۔ یہی رویہ ہر مؤمن کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
جدید دور میں استہزاء کے طریقے بدل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر دیندار افراد کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ایمان کی حفاظت کے لیے پہلے سے زیادہ ہوشیاری اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ یہ امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرے جو دین پر عمل کرتے ہیں اور استہزاء کے باوجود اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں۔ ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جہاں دین کے شعائر پر عمل کرنے کو عزت اور وقار کا مقام حاصل ہو۔
آپ کا تبصرہ