بدھ 25 دسمبر 2024 - 13:34
بانی پاکستان کا وژن، غزہ کے مظلوم، امت کی خاموشی اور پارہ چنار کی فریاد

حوزہ/قلم اٹھایا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو خراجِ عقیدت پیش کروں، مگر خیالات غزہ کی مظلوم سرزمین کی طرف مڑ گئے۔ وہ خطہ جہاں انسانیت کے بنیادی اصول پامال ہو رہے ہیں، معصوم بچے اور خواتین صیہونی جارحیت کا شکار ہیں اور لاکھوں فلسطینی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس خونی منظرنامے میں مسلم دنیا کی خاموشی ایک ناقابلِ معافی جرم محسوس ہوتی ہے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| قلم اٹھایا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو خراجِ عقیدت پیش کروں، مگر خیالات غزہ کی مظلوم سرزمین کی طرف مڑ گئے۔ وہ خطہ جہاں انسانیت کے بنیادی اصول پامال ہو رہے ہیں، معصوم بچے اور خواتین صیہونی جارحیت کا شکار ہیں اور لاکھوں فلسطینی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس خونی منظرنامے میں مسلم دنیا کی خاموشی ایک ناقابلِ معافی جرم محسوس ہوتی ہے۔

بانی پاکستان کی سیاسی بصیرت اور مسلمانوں کی آزادی کے لیے ان کا غیر متزلزل عزم آج کے دور میں مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے فلسطین کے حق میں ایک مضبوط اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کے قیام کو "امت کے قلب میں گھسایا گیا خنجر" قرار دیا۔ ان کا یہ قول ہماری فلسطین پالیسی کی بنیاد بن گیا، لیکن آج ان کے افکار پر عمل نہ ہونے کا نتیجہ غزہ کی تباہی اور امت کی خاموشی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

صیہونی طاقتوں نے غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے گھروں کو کھنڈر میں بدل دیا، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد پر بمباری کی، اور بنیادی ضروریات جیسے بجلی اور پانی کی فراہمی کو ختم کر دیا۔ بچوں اور خواتین کے قتل عام نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن مسلم دنیا اس ظلم پر خاموش ہے۔ قائد اعظم کا وہ درس جو مسلمانوں کو اتحاد، حریت، اور حقوق کے تحفظ کی طرف بلاتا ہے، آج ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے۔

یہ وقت ہے کہ قائد اعظم کے وژن کو زندہ کیا جائے اور امت مسلمہ کو متحد ہو کر فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری مذہبی، اخلاقی، اور انسانی ذمہ داری ہے کہ ہم غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کریں۔ خاموشی مزید نسل کشی کو روکنے میں ناکامی کا سبب بنے گی اور ہماری اجتماعی تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ چھوڑے گی۔

بانی پاکستان کے افکار اور فلسطین کے مظلوموں کی داستان آج ہم سے عملی جدوجہد کی طلبگار ہیں۔ یہ وقت ہے کہ دنیا کو بتا دیا جائے کہ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہی اصل مقاومت ہے۔

جب بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی ولادت کا دن آتا ہے، ہم ان کی عظیم قیادت، بصیرت اور قوم کے لیے دی گئی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہ دن ہمیں ان کے الفاظ اور اصولوں کی روشنی میں اپنے کردار کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتا ہے؛ لیکن اس سال، پارہ چنار کے مظلوم عوام کی حالت زار ہماری اجتماعی ناکامی کا آئینہ بن رہی ہے۔

پارہ چنار، جو پاکستان کے اہم خطوں میں شامل ہے، پچھلے 78 دنوں سے مکمل طور پر محصور ہے۔ راستے بند ہیں، ضروریاتِ زندگی ناپید ہیں اور لوگ ادویات اور خوراک کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف انسانیت سوز ہے بلکہ قائد اعظم کے ان اصولوں سے بھی انحراف ہے جو انہوں نے پاکستانی ریاست کے قیام کے وقت دیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا، "پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں تمام لوگ مساوی حقوق اور بنیادی سہولیات کے ساتھ امن سے رہ سکیں گے۔"

پارہ چنار کی موجودہ حالت قائد اعظم کے خواب کے برعکس ہے۔ یہ نہ صرف وہاں کے عوام کے لیے ایک انسانی المیہ ہے بلکہ ریاستی ذمہ داری پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے جہاں قائد اعظم نے سب کے لیے مساوات اور انصاف کا تصور دیا تھا؟

آج پارہ چنار کے مظلوم عوام ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ قائد اعظم کا خواب صرف تقاریر اور تقریبات میں یاد کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے الفاظ ہمیں اتحاد، ہمدردی، اور اجتماعی ذمہ داری کا درس دیتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ ہم قائد اعظم کے اصولوں کی روشنی میں عمل کریں۔ پارہ چنار کے مظلوم عوام کی مشکلات کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان کے لیے راشن، ادویات اور دیگر ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پاکستان کے ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ریاست سے تحفظ اور بنیادی سہولیات کی توقع رکھے۔

قائد اعظم کے یومِ ولادت پر ہمیں ان کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پارہ چنار کے عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور ان کے حقوق کے لیے کھڑے ہیں۔ یہ دن ہمیں یہ عہد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم ایک مضبوط، متحد اور انصاف پسند پاکستان کی تعمیر کریں گے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .