تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی | عالمی سیاست میں نظریات اور تحریکات کا ٹکراؤ اکثر ایسی مثالیں پیش کرتا ہے، جہاں ایک جانب قربانی، استقامت اور وفاداری کا مظاہرہ ہوتا ہے، تو دوسری جانب لالچ، مفاد پرستی اور خود غرضی کا۔ حزب اللہ اور شہید سید حسن نصر اللہ کی جدوجہد اور ان کے مخالفین کے رویے اس حقیقت کا عملی مظاہرہ ہیں۔ یہ حقیقت حال ہی میں اس وقت مزید نمایاں ہوئی جب صہیونی پروپیگنڈے کے خلاف حزب اللہ کی حمایت ایک بار پھر سامنے آئی اور ساتھ ہی راغب علامہ جیسے میوزیکل آرٹسٹ کی مفاد پرستی کا پردہ بھی چاک ہوا۔
حزب اللہ کا وجود ان مظلوموں کی آواز ہے جو طاقت کے ایوانوں میں دبائی جا رہی ہیں۔ 2006 کی 33 روزہ جنگ اس جدوجہد کا ایک اہم موڑ تھی۔ اس جنگ میں، جب صہیونی افواج نے لبنان کو تباہ کرنے کی کوشش کی، حزب اللہ نے اپنی استقامت اور عسکری مہارت سے صہیونی خوابوں کو خاک میں ملا دیا۔
اسی دوران حزب اللہ کے مجاہدین نے مورچوں سے سید حسن نصراللہ کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنی ثابت قدمی، جذبۂ قربانی اور مقاومت کے راستے پر چلنے کے عہد کا اظہار کیا۔ ان کے خط کا آغاز ہی جذبات اور عقیدت بھرا تھا:
"السلام علیک یا حبیبنا و السلام علیک یا عزیزنا"
سید حسن نصراللہ نے اپنے مجاہدین کو خط کا جواب دیتے ہوئے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:
"آپ لبنان کے پہاڑوں کی مانند بلند اور مضبوط ہیں، ہمیشہ سربلند اور پُر عزم رہتے ہیں۔ میں آپ کے سروں کو بوسہ دیتا ہوں، جو تمام سروں سے بلند ہیں اور ان ہاتھوں کو چومتا ہوں جو ہمیشہ ٹریگر پر رہتے ہیں۔"
یہ جواب نہ صرف حزب اللہ کے مجاہدین کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنا بلکہ لبنان کی عوامی اور ثقافتی حلقوں میں بھی گہرا اثر چھوڑ گیا۔
حزب اللہ کے اس حوصلہ افزا پیغام نے لبنان کی مشہور مسیحی سِنگر جولیا پطرس کے دل کو چھو لیا۔ وہ سید حسن نصراللہ کے جواب سے اس قدر متاثر ہوئی کہ فوراً غسان مطر (لبنان کی ادبی انجمن کے صدر ) سے ملاقات کی اور ان سے ایک ترانے کی تخلیق کی درخواست کی۔
اس ترانے کے بول، جو سید حسن نصراللہ کے الفاظ سے متاثر تھے، مقاومت کی علامت بن گئے۔
اس ترانے کا آغاز "احبائی، احبائی" کے الفاظ سے ہوتا ہے، جو سوشل میڈیا پر دستیاب ہے۔ اسے تلاش کرنے کے لیے "جولیا پطرس" یا "احبائی جولیا پطرس" سرچ کیا جا سکتا ہے۔
جولیا پطرس نے یہ بات اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ شہید سید حسن نصر اللہ نے مجاہدین کے خط کا جواب دیتے ہوئے انہیں "احبائی" یعنی "میرے عزیزو، میرے عزیزو" کہہ کر محبت بھرے الفاظ میں مخاطب کیا۔
انہوں نے مزید کہا:"میں نے آپ کا پیغام سنا، جس میں عزت اور ایمان کا ذکر تھا۔
آپ وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ میدان میں خدا کے سپاہی ہیں۔
آپ سچائی کا وعدہ ہیں اور ہماری آنے والی فتح کے ضامن ہیں ..."
یہ ترانہ نہ صرف لبنانی عوام بلکہ عالمی سطح پر مظلوموں کے لیے ایک حوصلہ مند آواز بن گیا۔ جولیا پطرس، جو ایک مسیحی سِنگر تھیں، نے نہ صرف حزب اللہ کی حمایت کی بلکہ صہیونی دھمکیوں کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔
دوسری جانب، راغب علامہ جیسے لبنانی میوزیکل آرٹسٹ اور ٹیلی ویژن ایکٹر صہیونی پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے۔ حال ہی میں، اسرائیل نے راغب علامہ کو خطیر رقم کی پیشکش کی تاکہ وہ سید حسن نصراللہ کے خلاف بیان دیں۔ راغب علامہ نے اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے سید حسن نصراللہ کے خلاف ایک متنازع انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے شہید سید حسن نصراللہ کی شخصیت اور جدوجہد کو نشانہ بنایا۔
یہ اقدام نہ صرف راغب علامہ کی مفاد پرستی کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ صہیونی لابی اپنے مفادات کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ تاہم، لبنان کے عوام اور خاص طور پر جنوبی لبنان کے لوگوں نے اس حرکت پر سخت ردعمل دیا ہے۔ راغب علامہ کو ایک ایسے "حمار" (گدھے) سے تشبیہ دی جا رہی ہے جو صہیونیوں کے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔
جولیا پطرس اور راغب علامہ کے رویے اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ فنکار صرف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے ہی نہیں بلکہ اپنے نظریات اور موقف کے ذریعے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ جولیا پطرس نے مقاومت کے پیغام کو اپنایا، جبکہ راغب علامہ نے اپنے فن کو صہیونی مفادات کے لیے استعمال کیا۔
پس یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حق اور باطل کی جنگ میں کردار کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ حزب اللہ کے مجاہدین اور سید حسن نصراللہ شہید کی جدوجہد نہ صرف لبنان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ دوسری جانب، راغب علامہ جیسے افراد اپنی وقتی مفاد پرستی کے باعث تاریخ کے صفحات میں بے حیثیت رہ جائیں گے۔
لبنان کے عوام نے ہمیشہ مقاومت کا ساتھ دیا ہے اور آئندہ بھی وہ صہیونی گماشتوں اور ان کے پروپیگنڈے کے خلاف ڈٹے رہیں گے۔ حزب اللہ اور شہید سید حسن نصر اللہ کی جدوجہد، جو حق کی آواز ہے، ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گی۔
آپ کا تبصرہ