پیر 23 دسمبر 2024 - 14:52
زن، زندگی، آزادی: حقیقت یا فریب؟

حوزہ/ انسانی تاریخ کے ہر دور میں شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لیے فریب، دھوکہ دہی اور خوش نما نعروں کا سہارا لیا ہے۔ یہ نعرے بظاہر اصلاح، خیر خواہی اور آزادی کے راستے دکھائی دیتے ہیں؛ لیکن حقیقت میں ان کا مقصد انسانی معاشروں کو فساد، انتشار اور اخلاقی زوال کی طرف دھکیلنا ہوتا ہے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| انسانی تاریخ کے ہر دور میں شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لیے فریب، دھوکہ دہی اور خوش نما نعروں کا سہارا لیا ہے۔ یہ نعرے بظاہر اصلاح، خیر خواہی اور آزادی کے راستے دکھائی دیتے ہیں؛ لیکن حقیقت میں ان کا مقصد انسانی معاشروں کو فساد، انتشار اور اخلاقی زوال کی طرف دھکیلنا ہوتا ہے۔

موجودہ دور کا مشہور نعرہ "زن، زندگی، آزادی" بھی انہی فریب کار نعروں میں سے ایک ہے، جسے مغرب اور اس کے حامیوں نے اسلامی معاشروں میں نفوذ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ نعرہ ظاہری طور پر خواتین کے حقوق، زندگی کی خوشحالی اور آزادی کی بات کرتا ہے؛ لیکن اس کے پیچھے چھپے مقاصد کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس پر گہرائی سے غور کرنا ہوگا۔

پہلا سوال: کیا مغرب عورت کو باعزت انسان سمجھتا ہے؟

مغربی معاشرہ بظاہر خواتین کے حقوق کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے؛ لیکن حقیقت میں مغربی کلچر عورت کو محض ایک "جنس" کے طور پر دیکھتا ہے۔ اگر عورت کو ایک باعزت اور بااختیار انسان سمجھا جاتا تو اس کی عزت و عصمت کو سرِ بازار نیلام کرنے کی کوشش نہ کی جاتی۔ عورت کو بے پردگی پر مجبور کرنا اور باحجاب خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مغرب کا یہ نعرہ محض ایک دھوکہ ہے۔
اسلام نے عورت کو حقیقی آزادی اور عزت بخشی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں خواتین کے حقوق، ان کے مقام اور ان کی عزت کی حفاظت کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ مگر مغرب، عورت کو بے پردہ کر کے اور اس کے خاندانی رشتوں کو کمزور کر کے اسے محض ایک "استعمالی شے" کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف عورت کی تحقیر ہے بلکہ خاندانی نظام کی تباہی کا بھی باعث بنتی ہے۔

دوسرا سوال: زندگی کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟

زندگی کا مطلب محض جسمانی خواہشات کی تسکین نہیں، بلکہ یہ ایک امتحان ہے جس کا مقصد دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ مغربی طرزِ زندگی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف عیش و عشرت ہے، چاہے اس کے لیے کسی بھی حد کو عبور کرنا پڑے؛ لیکن یہ سوچ انسانی مقام کو حیوانی سطح پر لے آتی ہے۔
اسلامی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ زندگی، آخرت کی کھیتی ہے۔ یہ دنیاوی زندگی اس وقت کامیاب ہے جب انسان اپنی عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ اسلام نہ صرف ایک متوازن طرزِ زندگی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اس کے ذریعے انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

تیسرا سوال: آزادی کی حدود کیا ہیں؟

آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جو چاہے کرے، بلکہ آزادی وہی ہے جو عقل، اخلاق اور قانون کے دائرے میں ہو۔ مغرب آزادی کا نعرہ لگا کر درحقیقت بے راہ روی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر آزادی کی کوئی حد نہ ہو تو یہ آزادی دوسروں کے حقوق کو پامال کرے گی اور معاشرتی انتشار کا باعث بنے گی۔
اسلام نے آزادی کو عقل اور شریعت کے دائرے میں محدود کیا ہے تاکہ نہ صرف انسان خود کامیاب ہو بلکہ اس کی آزادی دوسروں کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہو۔ اسلام میں حقیقی آزادی وہ ہے جو انسان کو اللہ کی اطاعت کے ذریعے روحانی معنوی بلندی پر لے جائے اور دنیاوی زندگی میں بھی کامیابی دلائے۔

نتیجہ: حقیقت یا فریب؟

"زن، زندگی، آزادی" ایک پُرکشش نعرہ ہے؛ لیکن جب اس کے حقیقی معنی اور مقاصد کا جائزہ لیا جائے تو یہ نعرہ اسلام کی تعلیمات کے مقابلے میں بالکل کھوکھلا دکھائی دیتا ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت، زندگی کو مقصد، اور آزادی کو ضابطہ فراہم کیا ہے۔
یہ نعرہ اگرچہ بظاہر حق معلوم ہوتا ہے؛ لیکن اس کے پیچھے مقاصد مغربی استعمار کی چالوں کا حصہ ہیں۔ جیسے خوارج نے "لا حکم الا لله" کا نعرہ لگا کر فساد برپا کیا، اسی طرح یہ نعرہ بھی مغربی طاقتوں کے استحصالی عزائم کا آلہ کار ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ حقیقی آزادی اور عزت اسلام کے دائرے میں ممکن ہے، نہ کہ مغربی استعماری نعروں کے تحت۔
اسلامی تعلیمات کا یہ پیغام ہمیں ہر وقت یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزارنا، رشتوں کی قدر کرنا اور انسانیت کے لیے محبت کا پیغام دینا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ عورت کو اسلام نے جو مقام و مرتبہ دیا، وہ کسی بھی انسانی تہذیب یا قانون میں موجود نہیں۔ لہٰذا، ہمیں ان خوش نما نعروں کے پیچھے چھپے مکروہ عزائم کو پہچاننا ہوگا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنوارنا ہوگا۔

مغربی نعرے کے پیچھے چھپے عزائم

مغرب کا "زن، زندگی، آزادی" کا نعرہ بظاہر خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتا ہے، لیکن اس کا مقصد عورت کو اس کی حقیقی شناخت اور مقام سے محروم کرنا ہے۔ مغربی نظام میں عورت کو مرد کے مساوی قرار دے کر اسے ذمہ داریوں کے نام پر استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔ عورت کو بے پردگی اور اشتہار کی زینت بنا کر اس کی شخصیت کو مادی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ نعرہ دراصل خاندانی نظام کو کمزور کر کے معاشرتی انتشار کو فروغ دینے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔

خاندان کی تباہی کا منصوبہ

خاندانی نظام معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے۔ مغرب نے عورت کو آزادی کے نام پر گھر سے باہر نکال کر معاشرتی اور معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا ہے، جس سے وہ ماں، بیوی اور بیٹی کے طور پر اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہو گئی ہے۔ یہ عمل نسلوں کی تربیت کو متاثر کرتا ہے اور نئی نسل اخلاقی و روحانی زوال کا شکار ہو رہی ہے۔

اسلامی متبادل

اسلام نے عورت کو گھر اور معاشرے میں ایسا مقام دیا ہے جو نہ صرف اس کی شخصیت کے لیے موزوں ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی لازمی ہے۔ اسلام کا تصور "زن، زندگی، آزادی" محبت، تحفظ، اور عزت پر مبنی ہے۔ عورت کا پردہ، اس کی عزت و عظمت کا محافظ ہے اور اس کی آزادی شریعت کے دائرے میں ہے جو اسے ایک مضبوط اور باعزت شخصیت بناتی ہے۔
تعلیمی اور فکری حملہ مغربی نعرے نہ صرف معاشرتی سطح پر نقصان دہ ہیں، بلکہ فکری طور پر بھی اسلامی اقدار پر حملہ آور ہیں۔ تعلیمی نظام کے ذریعے ان نعروں کو نوجوان نسل کے ذہنوں میں راسخ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی تہذیب سے دور ہو جائیں۔ اس کے لیے اسلامی دنیا کو اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط اور اسلامی اقدار کے مطابق بنانا ہوگا تاکہ مغربی فکری حملوں کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔

عمل کی ضرورت

یہ وقت صرف مغرب کے نعروں کو مسترد کرنے کا نہیں بلکہ اسلامی اقدار کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کا ہے۔ مسلمان خواتین کو اپنی اصل پہچان کو سمجھنا ہوگا اور مغربی فریب کے مقابلے میں اسلام کی دی گئی عزت و آزادی کو اپنانا ہوگا۔ اسلامی معاشرتی ڈھانچے کو مضبوط کر کے ہی ان سازشوں کا توڑ ممکن ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .