بدھ 1 جنوری 2025 - 17:41
کراچی کے پُر امن دھرنے اور مظلوموں کے حق میں آواز: آئینی حق یا حکومتی جبر؟

حوزہ/پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر شہری کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور پُر امن احتجاج کرنے کا آئینی حق حاصل ہے؛ لیکن گزشتہ روز کراچی کے دھرنوں پر سندھ حکومت کی جانب سے کیا گیا، تشدّد اس حق کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے؛ یہ رویہ نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی ہے، بلکہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کے لیے حوصلہ شکن پیغام بھی ہے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر شہری کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور پُر امن احتجاج کرنے کا آئینی حق حاصل ہے؛ لیکن گزشتہ روز کراچی کے دھرنوں پر سندھ حکومت کی جانب سے کیا گیا، تشدّد اس حق کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے؛ یہ رویہ نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی ہے، بلکہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کے لیے حوصلہ شکن پیغام بھی ہے۔

پارا چنار کے عوام اپنی سرزمین پر امن و سکون کی تلاش میں ہیں؛ لیکن وہ طویل عرصے سے مسلسل مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے ساتھ ہمدردی اور ان کے حق میں آواز بلند کرنا ایک انسانی فریضہ ہے، جو کہ کراچی کے عوام نے پُر امن دھرنے کی شکل میں نبھایا۔ تاہم، اس احتجاج پر ہونے والا لاٹھی چارج اور شیلنگ ایک ایسا عمل ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا حکومت واقعی اپنے عوام کے دکھ درد کو سمجھنے کے لیے تیار ہے؟
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی، نے اس تشدّد پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق، مظلومین کے حق میں احتجاج کرنا ہر شہری کا آئینی حق ہے؛ لیکن سندھ حکومت کا یہ اقدام نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ انسانی ہمدردی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اس رویے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت مظلوموں کی حمایت کرنے والوں کو دبانا چاہتی ہے۔
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار مظاہرین کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ان کے مطابق، اگر خیبر پختونخوا میں احتجاج نہیں ہوا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سندھ میں بھی احتجاج نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک منطقی بات ہے کہ پاکستان کے کسی بھی کونے میں مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنا ہر شہری کا حق ہے۔
کراچی کے دھرنے ایک پُر امن احتجاج کا مظہر تھے، جہاں عوام نے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی؛ لیکن پولیس کے وحشیانہ اقدامات نے اس احتجاج کو جبر کا شکار بنا دیا۔ یہ صورتحال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم واقعی ایک جمہوری معاشرے میں رہ رہے ہیں؟
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے اور ان کے جذبات کو سمجھے۔ دھرنے پر تشدّد کے بجائے، مظاہرین کے مسائل سننا اور ان کے مطالبات پر غور کرنا زیادہ مناسب ہوتا۔ حکومتی اقدامات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عوام کے حقوق کو کچلنے کے لیے کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے۔
پارا چنار کے مظلومین کے ساتھ یکجہتی اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ایک انسانی اور آئینی فریضہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے حقوق کا احترام کرے اور ایسے اقدامات سے گریز کرے جو جمہوری اقدار کے منافی ہوں۔ کراچی کے دھرنے ایک مثال ہیں کہ کس طرح مظلوموں کے لیے پُر امن آواز بلند کرنے والوں کو دبایا گیا۔ حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے مظاہرین کی فوری رہائی کو یقینی بنائے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اور عملی اقدامات کرے، تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو اور معاشرے میں امن و استحکام قائم رہ سکے۔ خاص طور پر پارا چنار کے موجودہ حالات، جہاں مرکزی شاہراہ، پاک افغان سرحد اور آمد و رفت کے دیگر راستے ڈھائی ماہ سے بند ہیں، اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت اور ملک کے خیرخواہ ذمہ داران ان مسائل کی سنگینی کا فوری ادراک کریں۔ علاقے میں دوائیں اور کھانے پینے کی اشیاء کی قلت سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ضروری ہے کہ ان مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے اور شہریوں کو امن و سکون فراہم کیا جائے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha