منگل 25 فروری 2025 - 09:30
مرقدِ شہید سید حسن نصر اللہ؛ مقاومت کا دائمی مرکز

حوزہ/تاریخ میں کچھ مقامات محض دفن گاہیں نہیں ہوتے، بلکہ ایک نئی جدوجہد، ایک نئی روح اور ایک ناقابلِ تسخیر عزم کے مراکز بن جاتے ہیں، وہ صرف یادگاریں نہیں، بلکہ تحریکوں کا نقطۂ آغاز ہوتے ہیں، جہاں نظریے پروان چڑھتے ہیں، مقاومت کی قوّت بڑھتی ہے اور آزادی کے خواب حقیقت کا روپ دھارتے ہیں۔ حوصلے جِلا پاتے ہیں اور نظریاتی جدوجہد کی سمت متعیّن ہوتی ہے۔ تاریخِ اسلام میں کچھ مزارات ایسے ہیں، جنہوں نے وقت کے ظالم حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی|

تاریخ میں کچھ مقامات محض دفن گاہیں نہیں ہوتے، بلکہ ایک نئی جدوجہد، ایک نئی روح اور ایک ناقابلِ تسخیر عزم کے مراکز بن جاتے ہیں، وہ صرف یادگاریں نہیں، بلکہ تحریکوں کا نقطۂ آغاز ہوتے ہیں، جہاں نظریے پروان چڑھتے ہیں، مقاومت کی قوّت بڑھتی ہے اور آزادی کے خواب حقیقت کا روپ دھارتے ہیں۔ حوصلے جِلا پاتے ہیں اور نظریاتی جدوجہد کی سمت متعیّن ہوتی ہے۔ تاریخِ اسلام میں کچھ مزارات ایسے ہیں، جنہوں نے وقت کے ظالم حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

شیعہ تاریخ میں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ جب کوئی عظیم شخصیت اپنی جان راہِ حق میں قربان کر دیتی ہے، تو اس کا مزار محض ایک یادگار نہیں رہتا بلکہ ایمان، حوصلے اور مزاحمت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ نجف میں امام علیؑ کا حرم عدل و انصاف کی صدا بلند کرنے والا مرکز ہے، کربلا میں امام حسینؑ کا روضہ ظلم کے خلاف مقاومت کی علامت ہے، مشہد میں امام رضاؑ کا مرقد عقیدے اور استقامت کی روشنی پھیلانے والا مرکز ہے اور دمشق میں حضرت زینبؑ کا روضہ اس حقیقت کا اعلان ہے کہ حق کی صدا کو دبایا نہیں جا سکتا۔ بیروت میں شہید سید حسن نصر اللہ کا مرقد بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ یہ محض ایک مقبرہ نہیں بلکہ ایک ایسا مرکز ہوگا جہاں آزادی قدس کے متوالے رکیں گے، اپنے ارادے مضبوط کریں گے اور مقاومت کی نئی حکمت عملی طے کریں گے۔ یہاں نظریہ مزید مستحکم ہو گا جو ہمیشہ سامراج کے لیے خوف کی علامت رہا ہے۔

بیروت میں یہ تدفین محض ایک رسم نہیں تھی، بلکہ مزاحمت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ اس مرقد کے قیام کے ساتھ ہی دو نہایت اہم اور فیصلہ کن امور رونما ہوں گے۔ اوّل، لبنانی شیعہ عوام اور حزب اللہ کے خلاف سازشوں کا خاتمہ مزید ناممکن ہو جائے گا۔ یہ مزار محض حزب اللہ سے وابستگی کی علامت نہیں ہوگا، بلکہ ایک اعتقادی و ایمانی مرکز بن جائے گا جو شیعہ و سنی اتحاد کا مظہر ہوگا۔ دوّم،جب کوئی تحریک سیاسی مرحلے سے گزر کر عقیدے کی شکل اختیار کر لیتی ہے، تو پھر اسے شکست دینا ممکن نہیں رہتا۔ یہی سبب ہے کہ یہ مزار، مقاومت کے استحکام اور اس کے دوام کا مرکز بن کر ابھرے گا۔

تاریخ نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ جو تحریکیں کسی نظریاتی و ایمانی بنیاد پر استوار ہو جاتی ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ شہید سید حسن نصر اللہ کا مزار بھی اب صرف ایک یادگار نہیں، بلکہ شیعیانِ لبنان اور فلسطین کی آزادی کے متوالوں کے لیے ایک ایسا مرکز بنے گا جہاں آزادی کی راہیں متعین ہوں گی، مزاحمت کے نئے باب کھلیں گے اور وہ تمام لوگ یہاں آئیں گے جو قدس کی آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے میدان میں ہیں۔ شہید سید حسن نصر اللہ کی شخصیت اب ایک سیاسی اور عسکری قائد کے درجے سے بڑھ کر ایک روحانی و معنوی، عقیدتی اور مذہبی شخصیت کی صورت اختیار کر چکی ہے اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب کوئی شخصیت ایمان اور عقیدے کا حصہ بن جائے، تو پھر اس کی تحریک کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے کربلا کو زندہ رکھا، یہی وہ حقیقت ہے جس نے امام زین العابدینؑ کی دعائیہ مزاحمت کو تاریخ میں امر کر دیا اور یہی وہ حقیقت ہے جو بیروت میں شہید سید حسن نصر اللہ کے مرقد کو ایک دائمی مرکزِ مقاومت میں تبدیل کر دے گی۔

امام خمینیؒ کا فرمان کہ “قدس کی راہ، کربلا سے ہو کر گزرتی ہے”، آج پہلے سے زیادہ واضح ہو چکا ہے۔ ہر وہ مقام جہاں شہدا دفن ہوتے ہیں، وہ ایک نظریاتی قلعہ بن جاتا ہے اور اب بیروت میں شہید حسن نصر اللہ کی آخری آرامگاہ بھی اس سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے۔ یہ مزار صرف ایک قبر نہیں بلکہ ایک مشعلِ راہ ہے، مقاومت کا نیا مورچہ ہے، جہاں آزادی قدس کے منصوبے ترتیب دیے جائیں گے اور جہاں ظلم کے خلاف مقاومت کے ارادے تازہ کیے جائیں گے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اعلان کر رہی ہے کہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوگی، مقاومت کی راہیں کبھی مسدود نہیں ہوں گی اور آزادی قدس کی جدوجہد کبھی رُک نہیں سکتی۔ یہ مزار وہ مرکز بنے گا جہاں سے اٹھنے والی صدائیں ایک دن مسجد اقصیٰ کی فضاؤں میں گونجیں گی۔

یہ مزار ایک ایسا عہد ہے جو ہر دور کے ظالم کے خلاف اٹھنے والے ہر حریت پسند کے دل میں جلتا رہے گا۔ یہ تاریخ کا وہ سنگِ میل ہے جسے دشمن لاکھ مٹانے کی کوشش کرے، مگر اس کی چمک کبھی مدھم نہیں ہوگی۔ یہاں آنیوالے ہر زائر کی آنکھوں میں قدس کی آزادی کا خواب ہوگا، ہر لب پر شہدا کی قربانیوں کا تذکرہ ہوگا اور ہر دل میں مقاومت کا عزم مزید مضبوط ہوگا۔ یہ مرقد دشمنانِ اسلام کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ صدائے حریت کو کبھی خاموش نہیں کیا جا سکتا، نہ میزائل اسے روک سکتے ہیں، نہ سیاسی چالیں، نہ اقتصادی پابندیاں، نہ ہی مکاری اور فریب۔ یہاں ہر سانس ایک پیغام لے کر اٹھے گی کہ مقاومت کی راہیں ہمیشہ کھلی رہیں گی اور جب تک دنیا میں ظلم موجود ہے، تب تک یہ مزار ایک امید، قوّت کا سرچشمہ اور ایک ناقابل تسخیر قلعہ بنا رہے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha