جمعرات 26 دسمبر 2024 - 18:59
جولانی کا سیکولر نقاب اور شام میں طاقت کے کھیل کا اگلا مرحلہ

حوزہ/ شام کے حالات طویل عرصے سے سنگین پیچیدگیوں کا شکار رہے ہیں، جہاں داخلی خانہ جنگی، بیرونی مداخلت اور بین الاقوامی سازشوں نے گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔ تاہم، حالیہ دنوں میں مغربی، عربی اور ترک رہنما شام میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے ابو محمد الجولانی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں مصروف ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف شام، بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین اور دور رس نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| شام کے حالات طویل عرصے سے سنگین پیچیدگیوں کا شکار رہے ہیں، جہاں داخلی خانہ جنگی، بیرونی مداخلت اور بین الاقوامی سازشوں نے گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔ تاہم، حالیہ دنوں میں مغربی، عربی اور ترک رہنما شام میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے ابو محمد الجولانی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں مصروف ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف شام، بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین اور دور رس نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

ابو محمد الجولانی، جو ایک وقت میں القاعدہ سے منسلک رہ چکا ہے اور شام میں اس وقت ہیئت تحریر الشام کا سربراہ ہے، اب مغربی اور عرب دنیا کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں، امریکہ، ترکی، قطر، اردن، سعودی عرب اور یورپ کے اہم ممالک کے نمائندوں نے جولانی سے ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ ملاقاتیں اس وقت ہو رہی ہیں جب شام میں سیاسی منظرنامے پر ایک نئی حکومت کو اقتدار منتقل ہونے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔

جولانی، جس نے اپنی دہشت گردانہ شناخت کو دبانے کے لیے سیکولر مظاہر اپنا لیے ہیں، خود کو مغربی دنیا کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کر رہا ہے؛ لیکن اس کا یہ نیا چہرہ ایک خطرناک کھیل کا حصہ معلوم ہوتا ہے جسے ہم 12 نکات میں اس طرح پیش کر سکتے ہیں۔

1. جولانی کو سیاسی حیثیت دینا

یہ واضح ہو رہا ہے کہ مغربی دنیا جولانی کو شام کی نئی حکومت کا سربراہ بنانا چاہتی ہے۔ شام میں ایک "جمہوری حکومت" کے قیام کے لیے جولانی کو قبول کرنا، مغربی دنیا کی ایک گہری سازش ہے۔ جولانی کو دہشت گرد سے ایک قانونی رہنما بنانے کی کوشش ایک ایسے شام کی تیاری ہے، جو سامراجی طاقتوں کے مفادات کا محافظ ہو۔

2. گروپوں میں اختلافات ختم کرنا

شام میں مختلف مسلح گروپوں کی موجودگی اور ان کے مابین اختلافات، جولانی کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے جولانی کو تسلیم کرنے کا مقصد، اسے ان گروہوں کے درمیان ایک مضبوط رہنما کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف جولانی کو طاقت ملے گی بلکہ شام میں موجود دیگر گروپوں کو بھی پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جائے گی۔

3. سیاسی اور سیکیورٹی مفادات کا تحفظ

مغربی اور عرب ممالک شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جلد از جلد اقدامات کر رہے ہیں۔ جولانی کے ساتھ ان کے رابطے، شام میں ان کے سیاسی اور سیکیورٹی مفادات کو محفوظ بنانے کا حصہ ہیں۔ یہ ممالک شام کے مستقبل میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی علاقائی پوزیشن کو مضبوط کر سکیں۔

4. محورِ مقاومت کے خلاف محاذ تیار کرنا

اس ساری سازش کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جولانی کی قیادت میں ایک نئی حکومت کے ذریعے ایران اور محورِ مقاومت کو مکمل طور پر شام سے بے دخل کرنا ہے۔ ترکی، عربی اور اسرائیلی اتحاد کو مضبوط کر کے، ایک ایسا محاذ تیار کیا جا رہا ہے جو ایران کے خلاف ہو اور اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کرے۔ شام میں ایک ایسی حکومت، جو نہ تو اپنی سرزمین پر مکمل اختیار رکھتی ہو، نہ عوامی حمایت اور نہ ہی ایک مضبوط فوج، کبھی بھی خطے میں استحکام نہیں لا سکتی۔ بلکہ یہ حکومت مزید انتشار کا باعث بنے گی۔

یہ بھی واضح ہے کہ جولانی کی حکومت کو مغربی ممالک کی طرف سے حمایت ملنے کے باوجود، شام کی اندرونی اور بیرونی صورتحال کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔

5. مغربی اسٹریٹیجی کی پیچیدگی

مغرب کی طرف سے جولانی کی حمایت صرف شام کے اندرونی معاملات تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع تر اسٹریٹیجی کا حصہ معلوم ہوتی ہے، جس کے ذریعے مغربی طاقتیں مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کو اپنی مرضی سے ترتیب دینا چاہتی ہیں۔ جولانی کو ایک "قابلِ قبول لیڈر" کے طور پر پیش کرنے کا مقصد، ایک ایسا "ماڈل" فراہم کرنا ہے جو دیگر مزاحمتی قوّتوں کے خلاف آسانی سے استعمال کیا جا سکے۔

6. کُردوں کے ساتھ ممکنہ تعلقات

شام کے شمال میں موجود کُرد فورسز، جولانی کے مستقبل کے لیے ایک چیلنج کے ساتھ ایک ممکنہ موقع بھی ہیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، جولانی کو کُردوں کے ساتھ ایک عارضی اتحاد کی طرف دھکیل سکتے ہیں تاکہ خطے میں ایران کے علاوہ ترکی پر دباؤ ڈال کر آہستہ آہستہ اسے بھی سائیڈ پہ کر دیا جائے۔

7. اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ تعاون

شام میں جولانی کی قیادت کے قیام سے اسرائیل کو کئی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں، جن میں گولان کی پہاڑیوں پر اس کا قبضہ مستحکم کرنا اور شام کے جنوب میں ایران اور حزب اللہ کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا شامل ہے۔ جولانی کے ذریعے ایک ایسا "بفر زون" قائم کرنا ہے جو اسرائیل کے لیے ایک حفاظتی دیوار کے طور پر کام کرے گا۔

8. ترکی کا دوہرا کردار

ترکی، جو بظاہر جولانی کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے، اس معاملے میں ایک دوہرا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ مغربی ممالک کے ساتھ اس سازش میں شامل ہے اور دوسری طرف، اپنے داخلی کُرد مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس صورتحال کو استعمال کر رہا ہے۔ ترکی کی یہ حکمت عملی خطے میں مزید پیچیدگیوں کو جنم دے سکتی ہے۔

9. شام میں جولانی کے اقتدار کے خلاف ممکنہ داخلی ردعمل ایک اہم پہلو ہوگا۔ جولانی کی ماضی کی دہشت گردانہ کاروائیاں اور مغربی سرپرستی میں اس کی حمایت، شامی عوام بالخصوص نوجوانوں کے لیے ناقابل قبول ہو سکتی ہیں۔ یہی عوامل داخلی آواز کو شدت بخش سکتے ہیں اور عوامی سطح پر ایک مضبوط ردعمل کو جنم دے سکتے ہیں۔

10. معیشت کو ہتھیار بنانا

شام کی معیشت، جو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے، جولانی کی قیادت میں مزید بیرونی دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے۔ مغربی ممالک شام کی معیشت کو اپنی شرائط پر چلانے کی کوشش کریں گے، جس سے وہاں کے عوام مزید مشکلات کا شکار ہوں گے۔

11. ایران کے خلاف اقتصادی جنگ

جولانی کی حکومت سے، مغرب شام کو ایران کے خلاف ایک اقتصادی میدانِ جنگ میں تبدیل کر سکتا ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ تجارتی راستوں اور منصوبوں کو نقصان پہنچانے کے لیے، جولانی کی حکومت ایک کارآمد آلہ ثابت ہو سکتی ہے۔

12. عرب دنیا میں دراڑیں

جولانی کے ساتھ تعلقات رکھنے والے عرب ممالک، جیسے سعودی عرب اور قطر، اس عمل کے دوران مزید اختلافات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ شام میں اثر و رسوخ بڑھانے کی یہ دوڑ، خطے میں عرب ممالک کے اندرونی اختلافات کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔

نتیجتاً، شام میں جولانی کو اقتدار سونپنے کی یہ سازش نہ صرف مغربی دنیا کی مکارانہ منصوبہ بندی کو آشکار کرتی ہے، بلکہ اس خطے میں نئی تباہیوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ایران، حزب اللہ لبنان اور دیگر مقاومتی تنظیمیں اس صورتحال سے بخوبی واقف ہیں اور ان چالوں کے ممکنہ نتائج کا گہرائی سے ادراک رکھتی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ شام میں جاری یہ کھیل محض حکومت کی تبدیلی تک محدود نہیں بلکہ خطے کی جغرافیائی اور سیاسی حقیقتوں کو بدلنے کی ایک وسیع کوشش ہے۔ اس کے اثرات شام سے نکل کر پورے مشرقِ وسطیٰ پر مرتب ہوں گے اور ایران و محورِ مقاومت کو مزید پیچیدہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha