ہفتہ 28 دسمبر 2024 - 14:45
عراق کی اہمیت: ایران کے لیے ایک اہم میدان اور نئی سازشوں کا مرکز

حوزہ/عراق تاریخی، جغرافیائی اور اسٹریٹجک اعتبار سے ہمیشہ ایران کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ اہمیت نہ صرف ایران کے اسلامی جمہوری دور حکومت تک محدود ہے، بلکہ ایران کے شاہنشاہی دور میں بھی عراق کا وجود اور استحکام ایران کی داخلی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔ ایران کے لیے عراق محض ایک پڑوسی ملک نہیں، بلکہ اس کی داخلی سلامتی، اقتصادی پالیسی اور جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے ایک کلیدی عنصر ہے۔

تحریر : مولانا مداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| عراق تاریخی، جغرافیائی اور اسٹریٹجک اعتبار سے ہمیشہ ایران کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ اہمیت نہ صرف ایران کے اسلامی جمہوری دور حکومت تک محدود ہے، بلکہ ایران کے شاہنشاہی دور میں بھی عراق کا وجود اور استحکام ایران کی داخلی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔ ایران کے لیے عراق محض ایک پڑوسی ملک نہیں، بلکہ اس کی داخلی سلامتی، اقتصادی پالیسی اور جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے ایک کلیدی عنصر ہے۔

ایران اور عراق کے درمیان تعلقات محض سیاسی اور سفارتی حدود تک محدود نہیں ہیں بلکہ دونوں ممالک کی سلامتی براہ راست ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ عراق میں امن کا قیام ایران کے سرحدی علاقوں کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے، جبکہ عراق میں عدم استحکام ایران کے داخلی حالات پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ مغربی طاقتیں اس حقیقت کو بخوبی سمجھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ عراق کو ایران کے اثر و رسوخ سے باہر نکالنے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔

حشد الشعبی، عراق میں داعش کے خلاف جنگ کے دوران تشکیل دیا گیا ایک عوامی ملیشیا ہے جس نے عراق کے عوامی حلقوں میں ایک مضبوط حیثیت حاصل کی ہے۔ تاہم، مغربی طاقتیں اور ان کے مقامی اتحادی اس تنظیم کو عراق میں ایران کے اثر و رسوخ کی علامت سمجھتے ہیں اور اسی لیے اسے کمزور کرنے یا مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے ہیں۔

حال ہی میں مغربی ممالک نے عراق کے وزیر اعظم شیاع السودانی کو ایک کٹھن انتخاب کے سامنے کھڑا کیا:

1. حشد الشعبی کا انحلال کریں

یا

2. اپنی حکومت کا خاتمہ دیکھیں

یہ انتخاب نہ صرف عراق کی خود مختاری کے خلاف ایک کھلی سازش ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ مغربی طاقتیں عراق کے داخلی نظام کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔

اس بحران کے دوران، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے محمد الحسن نے آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی درخواست کی تاکہ حشد الشعبی کے انحلال کے حوالے سے مشاورت کی جا سکے۔ تاہم، آیت اللہ سیستانی نے الحسن سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ عراق کے داخلی معاملات میں غیر ملکی مداخلت ناقابل قبول ہے۔ یہ انکار، عراق کی خودمختاری کے دفاع کی ایک مضبوط علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

عراق کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مغربی، عبرانی اور عربی اتحاد ایک وسیع تر سازش کے ذریعے عراق کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اتحاد عراق میں ایران کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے اور بغداد کو ایک مغربی محور کا حصہ بنانے کے لیے سرگرم ہے۔

1. عراق کو ایران سے الگ کرنے کی کوشش

مغربی طاقتیں عراق میں ایران کے اثر کو محدود کرنے کے لیے حشد الشعبی کو ایک اہم ہدف کے طور پر دیکھتی ہیں۔ حشد الشعبی کا انحلال ایران کے لیے ایک اسٹریٹجک نقصان ہوگا اور اس سے بغداد میں مغربی اثر و رسوخ بڑھنے کے امکانات پیدا ہوں گے۔

2. الانبار اور دیگر علیحدگی پسند عناصر کا کردار

عراق کے صوبہ الانبار میں موجود علیحدگی پسند عناصر مغربی سازشوں کا ایک اور حصہ ہیں۔ یہ عناصر عراق کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جس سے عراق کی وحدت کو خطرہ لاحق ہے۔

3. ایران کے داخلی حالات سے فائدہ اٹھانا

مغربی طاقتیں ایران کے داخلی حالات میں کسی بھی ممکنہ احتجاج یا بد امنی کو عراق میں اپنی سازشوں کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ ایران میں بد امنی کے دوران عراق میں احتجاجات یا انتشار کا آغاز مغربی اتحاد کے لیے ایران کے اثر کو مزید کمزور کرنے کا ایک موقع بن سکتا ہے۔

لہذا، موجودہ حالات میں عراق کے پاس دو اہم راستے ہیں:

1. مغربی دباؤ کے آگے جھکنا

یا

2. ایران کے ساتھ مل کر اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا

عراق کی حکومت، خاص طور پر شیاع السودانی کے لیے یہ وقت انتہائی حساس ہے۔ ایران کے ساتھ تعاون اور اس کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر، عراق نہ صرف حشد الشعبی کو بچا سکتا ہے بلکہ اپنی داخلی خودمختاری کو بھی محفوظ رکھ سکتا ہے۔

ایران کی جانب سے حشد الشعبی کی حمایت، بغداد کو درپیش چیلنجز کے حل میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایران کے لیے ضروری ہے کہ وہ عراق کی حکومت کو سیاسی، عسکری اور سفارتی محاذوں پر مکمل حمایت فراہم کرے تاکہ مغربی سازشوں کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔

عراق کو اس وقت ایک پیچیدہ بحران کا سامنا ہے، جہاں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ مغربی طاقتوں کی یہ کوشش کہ عراق میں ایران کے اثر کو ختم کیا جائے، صرف بغداد کو کمزور نہیں کرے گی بلکہ پورے خطے کو ایک نئے عدم استحکام کی طرف دھکیل دے گی۔

لہذا، عراق کی حکومت کو چاہیے کہ وہ حشد الشعبی کو مضبوطی سے برقرار رکھتے ہوئے اپنی خودمختاری کا دفاع کرے۔ ایران، حزب اللہ لبنان اور دیگر مقاومتی قوّتوں کو اس موقع پر عراق کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ پیغام دینا ہوگا کہ مغربی اتحاد کی سازشیں نہ ماضی میں کامیاب ہوئیں، نہ اب ہوں گی۔

یہ واضح ہے کہ عراق میں امن و استحکام پورے خطے کے لیے ناگزیر ہے۔ بغداد کو اپنی داخلی خودمختاری اور عوامی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے سخت فیصلے کرنے ہوں گے اور اس بحران سے نکلنے کے لیے ایران کے تجربات سے استفادہ کرنا ان کے لیے بہترین راستہ ثابت ہوگا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha