تحریر : مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کے ہر معاشرے میں ایسی شخصیات موجود ہوتی ہیں، جو اپنے علم، کردار اور خدمت سے لوگوں کے دلوں میں مقام پیدا کرتی ہیں۔ خاص طور پر علماء کا طبقہ، جو دین و دنیا کی رہنمائی کا علمبردار ہوتا ہے، قوموں کی فکری اور معنوی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقی علماء اور خودنمائی کے خواہش مند افراد میں فرق کیسے کیا جائے؟ اس فرق کو سمجھنے کے لیے ان کے رویے، کردار اور غیر متوقع حالات میں ان کی حکمتِ عملی کو جانچنا ضروری ہے۔
حقیقی علماء اپنی زندگی کو قوم و ملت کی خدمت کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ان کی علمیت، اخلاص اور ہمدردی ان کے کردار کی بنیاد بنتی ہیں۔ وہ شہرت یا اقتدار کے خواہشمند نہیں ہوتے بلکہ ان کا مقصد انسانوں کو علم کے نور سے منور کرنا اور انہیں دین کی حقیقی روح سے روشناس کرانا ہوتا ہے۔ ایسے علماء اپنی خدمات کے ذریعے نہ صرف ایک روشن معاشرہ تشکیل دیتے ہیں بلکہ لوگوں کو دین کے ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
دوسری جانب، ایسے افراد بھی موجود ہیں جو علماء کا لبادہ اوڑھ کر شہرت اور اقتدار کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی چالاکیوں اور پُھرتیوں سے حقیقی علماء کی خدمات کو پسِ منظر میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہتھکنڈے عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نت نئے طریقے اپنانا، دکھاوے کی خدمات پیش کرنا اور اپنی تشہیر پر مبنی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد دین کے بجائے اپنی ذات کو مرکزِ نگاہ بناتے ہیں، جس سے نہ صرف عوام گمراہ ہوتی ہے بلکہ حقیقی علماء کی کاوشوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
ایک شخص کے کردار کی سب سے بڑی آزمائش غیر متوقع حالات میں ہوتی ہے۔ حقیقی علماء ایسے حالات میں ثابت قدم رہتے ہیں اور قوم کو مایوسی سے نکالنے کے لیے عملی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا رویہ حالات کے مطابق حکمت و تدبّر کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، شہرت کے خواہاں افراد ان حالات کو اپنی ذاتی مقبولیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اقدامات عوام کی خدمت کے بجائے خودنمائی کے لیے ہوتے ہیں، جس سے ان کی نیّت اور مقصد واضح ہو جاتا ہے۔
جب قوم و ملت دہشتگردی، سیلاب، زلزلے یا دیگر آفات سے دوچار ہوئی، یا کورونا جیسی عالمی وبا کے دوران مشکلات میں گرفتار ہوئی، تو ایسے میں قوم نے بخوبی پہچان لیا کہ کون سے علماء ان کے دکھ درد میں شریک ہیں اور حقیقی معنوں میں خدمت کر رہے ہیں۔ انہی سخت حالات نے عوام کو ان علماء کی شناخت دی جو نہ صرف ان کی مدد کے لیے میدان میں موجود رہے بلکہ اپنی کاوشوں سے معاشرے کو سہارا بھی دیا۔ ان آزمائشوں نے یہ واضح کر دیا کہ حقیقی خدمتگار علماء ہر حال میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں، جبکہ شہرت کے خواہاں افراد صرف دکھاوے کے لیے سرگرم نظر آتے ہیں۔
یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء کے کردار اور عمل کو سمجھیں نیز حقیقی اور شہرت طلب افراد میں فرق کریں۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی اور ان علماء کا ساتھ دینا ہوگا جو اپنے اخلاص، علم اور عمل سے قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے افراد سے ہوشیار رہیں جو دین کے نام پر خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
علماء معاشرے کی روحانی و معنوی رہنمائی کا ستون ہیں؛ لیکن حقیقی علماء اور شہرت طلب افراد میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہمیں ایسے علماء کا احترام اور حمایت کرنی چاہیے جو دین اور قوم کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں، نہ کہ ان کا جو اپنی ذات کو دین کے نام پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں علم اور اخلاص کی روشنی کو عام کریں اور خودنمائی اور شہرت کے فریب سے بچیں۔ دین کے حقیقی خدمت گزاروں کو پہچاننا اور ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہی ہماری حقیقی کامیابی ہے۔
آپ کا تبصرہ