ہفتہ 14 دسمبر 2024 - 14:15
ایران کی موجودہ آزمائش: اتحاد ہی فتح کی کلید

حوزہ/ایران اس وقت ایک آزمائش کے دہانے پر کھڑا ہے۔ داخلی اور خارجی محاذوں پر ایک ایسی جنگ جاری ہے، جس میں دشمن نے اپنی تمام تر چالاکی اور وسائل جھونک دیے ہیں۔ یہ جنگ صرف اقتصادی یا عسکری نہیں، بلکہ ایک ذہنی اور نفسیاتی جنگ بھی ہے، جس میں دشمن کا ہدف ایرانی عوام کا اتحاد توڑنا اور نظامِ جمہوری اسلامی کو کمزور کرنا ہے۔ اس صورتحال میں ایران کی فتح یا شکست کا انحصار کسی اور پر نہیں، بلکہ ایرانی قوم کے عزم، ہوش اور اتحاد پر ہے، البتہ ایران یہ جانتا ہے کہ اسے کیسے مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| ایران اس وقت ایک آزمائش کے دہانے پر کھڑا ہے۔ داخلی اور خارجی محاذوں پر ایک ایسی جنگ جاری ہے، جس میں دشمن نے اپنی تمام تر چالاکی اور وسائل جھونک دیے ہیں۔ یہ جنگ صرف اقتصادی یا عسکری نہیں، بلکہ ایک ذہنی اور نفسیاتی جنگ بھی ہے، جس میں دشمن کا ہدف ایرانی عوام کا اتحاد توڑنا اور نظامِ جمہوری اسلامی کو کمزور کرنا ہے۔ اس صورتحال میں ایران کی فتح یا شکست کا انحصار کسی اور پر نہیں، بلکہ ایرانی قوم کے عزم، ہوش اور اتحاد پر ہے، البتہ ایران یہ جانتا ہے کہ اسے کیسے مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے۔

دشمن کی حکمت عملی کا پہلا ہدف عوام کو مایوسی کی دلدل میں دھکیلنا ہے۔ سخت اقتصادی پابندیاں، مہنگائی اور زندگی کے مسائل کو اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ عام شہریوں کے دلوں میں ناامیدی جنم لے۔ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نظام ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے اور مستقبل میں بہتری کی کوئی امید نہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب عوام کو نظام کے خلاف کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہم نے شام میں یہی صورتحال دیکھی، جہاں عوام کی مایوسی اور اختلافات نے دشمن کو موقع فراہم کیا کہ وہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دے۔

دوسرا ہدف ایران کے انقلابی حلقوں اور خواص کو بد دل کرنا ہے۔ نظام کی دفاعی صلاحیتوں کو کمزور دکھا کر، فوجی قیادت کو نشانہ بنا کر اور ایران کو خطے کی صورتحال میں ایک شکست خوردہ فریق کے طور پر پیش کر کے، دشمن یہ کوشش کر رہا ہے کہ ان حلقوں میں بے یقینی اور ناامیدی پیدا کی جائے۔ اس حکمت عملی کا مقصد یہ ہے کہ نظام کے اصل حمایتی بھی اس کے دفاع میں کمزور پڑ جائیں اور انقلاب کی روح متاثر ہو۔

تیسرا ہدف داخلی اختلافات اور تنازعات کو ہوا دینا ہے۔ مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل کو لے کر ایسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھیں۔ حالیہ دنوں میں حجاب کے مسئلے کو شدت سے اٹھایا گیا ہے؛ لیکن یہ صرف ایک مثال ہے۔ اصل مقصد عوام کو ایسے معاملات میں الجھانا ہے جو اس وقت کی ترجیحات نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہم مسائل پسِ پشت چلے جاتے ہیں اور عوام داخلی تنازعات میں مبتلا ہو کر دشمن کے اصل ہدف کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

آج، ایران ایک بڑی جنگ کے عین وسط میں ہے۔ یہ جنگ نہ صرف سرحدوں پر لڑی جا رہی ہے بلکہ ایران کے ہر گھر، ہر گلی اور ہر دل میں جاری ہے۔ دشمن کا منصوبہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کو اندر سے کمزور کر دیا جائے۔ شام میں، حکومت کی شکست کا سبب صرف عسکری کمزوری نہیں تھی، بلکہ عوام کی مایوسی، اختلافات اور حکومت کے دفاع کے لیے عوامی حمایت کی کمی نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ یہی فارمولہ آج ایران کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ موجودہ دور خطے میں "زندگی اور موت" کا لمحہ ہے۔ نیتن یاہو جیسے افراد اور صہیونی میڈیا براہِ راست ایرانی عوام کو مخاطب کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن کس حد تک خوفزدہ ہے اور اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے کس قدر بے تاب ہے؛ لیکن ان کا واحد ہتھیار یہ ہے کہ ایرانی عوام میں مایوسی، اختلاف اور عدم اتحاد پیدا کریں۔

اس وقت سب سے اہم ضرورت اتحاد کی ہے۔ اتحاد کا مطلب یہ نہیں کہ سب ایک ہی سوچ یا نظریے کے حامل ہوں۔ اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ تمام ایرانی، چاہے ان کے نظریات یا خیالات میں کتنے ہی اختلاف کیوں نہ ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں اور دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنائیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر سپریم لیڈر ہمیشہ زور دیتے ہیں۔

یہ وقت اندرونی تنازعات میں الجھنے کا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ وقت سیاسی یا سماجی مسائل کو بڑھاوا دینے کا ہے۔ یہ وقت ان مسائل کو ترجیح دینے کا ہے جو فوری نوعیت کے ہیں: اقتصادی مشکلات اور قومی سلامتی۔ دشمن نے ایران کے خلاف ایک "کمبی نیشن وار" چھیڑ رکھی ہے، جس میں داخلی تنازعات پیدا کرنا، خطے میں دباؤ بڑھانا اور بین الاقوامی سطح پر ایران کو تنہا کرنا شامل ہیں۔

حرم ہائے اہل البیت علیہم السلام کی بدولت ایران ایک مقدس سرزمین ہے اور جمہوری اسلامی ایک بہترین نظام۔ اس وقت ہر ایرانی کا فرض ہے کہ وہ اس سرزمین کے دفاع میں اپنا کردار ادا کرے۔ انقلابی بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ موجودہ حالات کو سمجھا جائے، ترجیحات کو صحیح طور پر طے کیا جائے اور ہر ممکن طریقے سے دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا جائے۔

آج، ایرانی قوم کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھے اور دشمن کو اس کے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دے۔ اگر یہ اتحاد قائم رہا، تو ایران اس آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلے گا اور اپنی طاقتور حیثیت کو دنیا کے سامنے ثابت کرے گا؛ لیکن اگر یہ اتحاد ٹوٹ گیا، تو شام کا حال ایک واضح مثال کے طور پر ہم سب کے سامنے ہے۔

یہ وقت ہے کہ ایرانی قوم اپنی تمام تر توانائیاں قومی سلامتی، اقتصادی استحکام اور اندرونی اتحاد پر مرکوز کریں۔ ایران کا مستقبل انہی عوامل پر منحصر ہے۔ دشمن کی سازشوں کو سمجھنا اور ان کے خلاف حکمت عملی سے کام لینا ہی ایران کو اس آزمائش سے سرخرو کرے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha