۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
شہداء

حوزہ/حالیہ دنوں میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور شام کا سقوط ایک تلخ حقیقت کے طور پر سامنے آیا ہے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے: کیا مدافعینِ حرم کی قربانیاں ضائع ہو گئیں؟ کیا ان کا بہایا ہوا خون رائیگاں گیا؟ ان سوالات کا جواب ہمیں تاریخ، نظریات اور قربانی کی اصل روح میں تلاش کرنا ہوگا۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| حالیہ دنوں میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور شام کا سقوط ایک تلخ حقیقت کے طور پر سامنے آیا ہے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے: کیا مدافعینِ حرم کی قربانیاں ضائع ہو گئیں؟ کیا ان کا بہایا ہوا خون رائیگاں گیا؟ ان سوالات کا جواب ہمیں تاریخ، نظریات اور قربانی کی اصل روح میں تلاش کرنا ہوگا۔

یہ مسئلہ محض جغرافیائی یا سیاسی حد تک محدود نہیں، بلکہ اس کے پیچھے نظریاتی، تاریخی اور تہذیبی عوامل کار فرما ہیں۔ مدافعینِ حرم کی مقاومت زمین کے ایک ٹکڑے پر قبضے یا کسی مخصوص علاقے کی فتح کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ ایسی اقدار کی لڑائی تھی جو ایک طرف مقاومت اور حریت کی علامت ہیں اور دوسری طرف استعماری طاقتوں کے سامراجی عزائم کے خلاف ایک مضبوط دیوار۔

شام کا سقوط محض ایک اتفاق نہیں بلکہ ایک منصوبے کا حصہ تھا جسے عالمی اور علاقائی طاقتوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے ترتیب دیا؛لیکن ہم گزشتہ سالوں کی مقاومت کو محض زمین یا اقتدار کی کشمکش کے تناظر میں نہ دیکھیں۔

مدافعینِ حرم کی قربانیوں کو بعض افراد جغرافیائی ناکامی کے تناظر میں دیکھتے ہیں؛ لیکن یہ تصوّر محدود سوچ کا نتیجہ ہے۔ ان کی قربانیاں کسی علاقے کو محفوظ رکھنے کے لیے نہیں بلکہ حق و باطل کے معرکے میں حق کا پرچم بلند رکھنے کے لیے تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ خونِ شہداء کبھی ضائع نہیں ہوتا، چاہے میدان جنگ میں ظاہری فتح نصیب ہو یا نہ ہو۔

کربلا کی مثال سب سے واضح ہے، جہاں سید الشہداء امام حسینؑ اور ان کے جاں نثار اصحاب نے زمین یا اقتدار کے لیے نہیں بلکہ حق کی سربلندی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ ان کا خون ایک نظریے کی آبیاری کر گیا، جس نے صدیوں تک مظلوموں کے لیے روشنی کا مینار بن کر رہنمائی کی ہے نیز کربلا تا قیامت ہدایت کا سر چشمہ رہے گی۔

اسی طرح شام میں مدافعینِ حرم کی قربانیاں کسی جغرافیائی حدود کو محفوظ رکھنے کے لیے نہیں بلکہ مقاومت کے اس تسلسل کو زندہ رکھنے کے لیے تھیں، جس نے ہمیشہ حق کے لیے آواز بلند کی۔

یہ کہنا کہ شام کا سقوط مقاومت کی شکست ہے، مقاومت کے بنیادی فلسفے کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ مقاومت کسی جغرافیے تک محدود نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے، جو عدل، آزادی اور ظلم کے خلاف قیام کی علامت ہے۔ زمین کھوئی جا سکتی ہے؛ لیکن نظریات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ہر مقاومتی مجاہد اس یقین کے ساتھ میدان میں آتا ہے کہ اس کی قربانی ایک عظیم مقصد کے لیے ہے۔ یہ مقصد جغرافیہ نہیں بلکہ وہ اصول ہیں جو ظلم کے خلاف قیام کو لازم قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدافعینِ حرم کا خون حیف نہیں، بلکہ وہ ایک ایسے نظریے کی بنیاد رکھتا ہے جو صدیوں تک زندہ رہے گا۔جنگ کے میدان میں فتح یا شکست کا تعیّن مادی پیمانوں سے نہیں ہوتا۔

بعض اوقات ظاہری شکست دشمن کی اصل طاقت اور عزائم کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ گزشتہ بحران میں، ملک شام نے مقاومت کے ذریعے دنیا کو یہ دکھایا کہ بڑی طاقتیں دوسروں کا استحصال کرنے اور اپنے سامراجی عزائم مسلط کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتی ہیں۔ ان طاقتوں نے نہ صرف اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا بلکہ انسانی حقوق اور اخلاقی اصولوں کو بھی بے دریغ پامال کیا۔

یہ بحران ایک واضح مثال تھا کہ کس طرح سامراجی طاقتیں دوسروں کو دبانے اور ان کی آزادی کو ختم کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لاتی ہیں؛ لیکن مقاومت نے ثابت کیا کہ نظریات کی جدوجہد محض مادی وسائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ غیر متزلزل عزم، قربانی اور اصولوں کی پُختگی سے جیتی جاتی ہے اور کیسے ظالموں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوا جا سکتا ہے اور سامراجی منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

لہذا شام کے سقوط کے باوجود، مقاومت کی تحریک زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ یہ تحریک انسانیت کے اصولوں پر مبنی ایک ایسی روشنی ہے جو ظلم کے خلاف قیام کو لازم قرار دیتی ہے۔

مدافعینِ حرم کا خون زمین کے ٹکڑوں کے لیے نہیں بہایا گیا بلکہ ایک نظریے کی حفاظت کے لیے قربان ہوا۔ یہ خون ایک ایسی روشنی بن چکا ہے جو مظلوموں کو قیام کا حوصلہ دیتا رہے گا۔

بھولنا نہیں چاہئے کہ مقاومت کا ہر سپاہی ایک اعلیٰ مقصد کے لیے میدان میں آتا ہے۔ اس کی قربانی زمینی فتح یا شکست سے بلند ہے۔ مقاومت ایک ایسی تحریک ہے، جو مظلوموں کے حقوق اور انسانی وقار کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ شام کا سقوط، مقاومت کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ مدافعینِ حرم کی قربانیاں مقاومت کی اس روشنی کو ہمیشہ کے لیے روشن کر چکی ہیں، جو ہر دور میں ظلم کے خلاف امید کی کرن بنے گی۔ مقاومت زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے اصولوں کی بقا کے لیے ہوتی ہے۔

لہٰذا، ہمیں ناامید ہونے کے بجائے مقاومت کی روح کو سمجھنا ہوگا اور اس یقین کو قائم رکھنا ہوگا کہ ظلم کے مقابلے میں حق ہمیشہ فتح یاب ہوتا ہے۔ شام کی مقاومت تاریخ میں ایک ایسی داستان کے طور پر یاد رکھی جائے گی، جو زمینی فتح سے بلند اور نظریاتی قربانی کی علامت ہے نیز یہ حقیقت ہے کہ خدا کی رضا کے لیے بہایا گیا خون کبھی ضائع نہیں ہوتا ہے۔ زمانے کے حالات بدلتے رہتے ہیں؛ لیکن جو خون خدا کی رضا کے لیے بہایا جائے، وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ اپنی تاثیر ضرور چھوڑتا ہے خداوند عالم حق کے راستے کا سب سے بڑا محافظ اور مددگار ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .