۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
عورت پر ظلم

حوزہ/ دنیا میں خواتین کی حیثیت پر ہر دور میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے دعویدار مغربی نظاموں میں، خاص طور پر لبرل ازم کے زیر اثر، خواتین کے حوالے سے دوغلی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں۔ ظاہری طور پر آزادی، حقوق اور مساوات کے نعروں کے پیچھے، خواتین کو ایک ایسی تجارتی شے میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو مردانہ لذتوں اور مادی فوائد کی قربانی چڑھائی جاتی ہے۔

تحریر : مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا میں خواتین کی حیثیت پر ہر دور میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے دعویدار مغربی نظاموں میں، خاص طور پر لبرل ازم کے زیر اثر، خواتین کے حوالے سے دوغلی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں۔ ظاہری طور پر آزادی، حقوق اور مساوات کے نعروں کے پیچھے، خواتین کو ایک ایسی تجارتی شے میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو مردانہ لذتوں اور مادی فوائد کی قربانی چڑھائی جاتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کے اس بیان پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا کو اس معاملے میں دفاعی نہیں بلکہ حملہ آور موقف اپنانا چاہیے۔ مغرب کو خواتین اور خاندان کے خلاف اپنی تاریخی اور جاری مظالم کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ لبرل ازم نے ایک طرف تو خواتین کے حقوق کا نعرہ بلند کیا؛ لیکن دوسری طرف ان کی عزت و وقار کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

مغربی دنیا نے "آزادی" کے نام پر خواتین کی جسمانی و جذباتی آزادی کو سلب کر کے انہیں صارفیت کا نشانہ بنایا۔ اشتہارات، تفریحی صنعت اور فیشن کی دنیا میں خواتین کو "برانڈ ایمبیسڈر" کے طور پر پیش کرنا دراصل ان کی قدر کو محض ایک تجارتی شے تک محدود کرنا ہے۔ مغربی روایات میں خواتین کے حقوق کے نعروں کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ ان کی حیثیت کو بازار کی اشیاء کی طرح ناپا جاتا ہے۔

مایکل سینڈل اور ولیم گارڈنر کی کتابوں میں واضح کیا گیا ہے کہ مغربی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام نے خواتین کے حقوق کو کس طرح مٹایا ہے۔ ان کے مطابق، یہ نظام خواتین کو آزادی کے نام پر مزید غلامی کی طرف دھکیلتا ہے، جہاں ان کی تمام شناخت ایک تجارتی شخصیت میں ڈھل جاتی ہے۔

اسلام خواتین کے حقوق، ان کے عزت و وقار اور خاندان کے استحکام کے لیے ایک مضبوط نظریہ پیش کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق عورت کی حیثیت نہ صرف ایک ماں، بیوی یا بہن کے طور پر معزز ہے بلکہ ایک انفرادی شخصیت کے طور پر بھی اس کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے۔ اسلامی نظام خواتین کو "آزادی" کے نام پر استحصال کے بجائے حقیقی آزادی دیتا ہے، جو ان کے وقار کو بلند کرتی ہے اور انہیں مردوں کے برابر لاتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا یہ کہنا کہ "ہم دفاعی نہیں بلکہ حملہ آور پوزیشن میں ہیں"، ایک حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔ مغرب کے ان دعوؤں کا بھرپور تجزیہ اور رد ضروری ہے جو خواتین کے حقوق کے نام پر ان کے استحصال کو معمول پر لاتے ہیں۔

لبرل ازم کے تحت خواتین کی حیثیت میں تنزلی کا ایک بڑا اثر خاندانی نظام پر بھی پڑا ہے۔ مغرب میں خاندانی نظام کا ٹوٹنا، طلاق کی بڑھتی شرح، والدین اور بچوں کے درمیان دوریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ لبرل ازم خاندان کے استحکام کو تباہ کر رہا ہے۔ ولیم گارڈنر کی کتاب "خاندانی اقدار کے خلاف جنگ" میں واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح مغربی معاشرہ خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔

مغربی دنیا کو خواتین کے خلاف اپنے تاریخی مظالم کا جواب دینا ہوگا۔ اسلامی دنیا کو چاہیے کہ وہ خواتین کے حوالے سے اسلامی نظریے کو عالمی سطح پر پیش کرے، جہاں ان کی عزت، کرامت اور حقوق کا تحفظ کیا گیا ہو۔ خواتین کو آزادی کے نام پر بے راہ روی کی طرف دھکیلنے کے بجائے، ان کے اصل مقام کو بحال کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

لیرل ازم کے چمکتے نعروں کے پیچھے چھپی حقیقتوں کو بے نقاب کرنا اور خواتین کی حقیقی آزادی اور وقار کو اجاگر کرنا اسلامی دنیا کی اہم ذمہ داری ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو عورت کو ایک تجارتی شے سے ایک باوقار انسان میں تبدیل کر سکتا ہے۔

حضرت فاطمہ زہراؑ کی سیرت خواتین کے لیے عزت، وقار اور حقیقی آزادی کا کامل نمونہ عمل ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ کردار، اخلاق اور مضبوط عقیدے کے ذریعے عورت نہ صرف اپنا مقام بلند کر سکتی ہے بلکہ معاشرے میں عزت و عظمت کی حقیقی ضمانت حاصل کر سکتی ہے۔ آج کے دور میں، ان کی تعلیمات کو اپنانا خواتین کی کامیابی اور وقار کے حصول کا بہترین راستہ ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .