تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| مشرق وسطیٰ کی سیاست میں شام کا سقوط ایک ایسے سانحے کی صورت اختیار کر چکا ہے، جو نہ صرف اس ملک، بلکہ پورے خطے کے مستقبل پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس سقوط کو بعض حلقے عوامی بغاوت قرار دے رہے ہیں؛ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بشار الاسد مخالف گروہوں کی کاروائیاں، اسرائیل کی جارحیت اور اسے امریکی سپورٹ سب مل کر یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ کسی داخلی مسئلے سے زیادہ بین الاقوامی طاقتوں کے عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔
شام میں اسد مخالف گروہوں کی سرگرمیوں کو عوامی تحریک کا نام دینا حقیقت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مختلف جنگجو گروہوں کی شورش ہے، جن کے پیچھے بین الاقوامی طاقتیں کارفرما ہیں۔ ان گروہوں کا مقصد عوامی بہبود نہیں بلکہ اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔
اسی دوران اسرائیل نے شام کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اسرائیلی حملوں میں شامی دفاعی مراکز اور اہم تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے، جبکہ موساد نے کچھ شامی سائنسدانوں کو قتل کر کے ملک کی ترقی کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ دوسری طرف، امریکہ شامی تیل کے ذخائر کو مسلسل لوٹ رہا ہے۔ ان تمام کاروائیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ شام نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی طور پر بھی اسے ناکارہ بنایا جا رہا ہے۔
اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کا مقصد خطے میں اپنی مرضی کے مطابق حکومتیں قائم کرنا ہے جو نہ صرف کمزور ہوں بلکہ بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں۔ شام کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسرائیل اور مغربی طاقتیں خطے کے ممالک کو داخلی تنازعات میں الجھا کر ان کے وسائل پر قابض رہنا چاہتی ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دوہری پالیسی اس وقت اور زیادہ نمایاں ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شام میں عوامی حقوق کے نام پر کاروائیاں کرتے ہیں؛ لیکن خطے کے دیگر آمروں اور شاہی خاندان پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔ یہ طرز عمل مغرب کے مفادات کو عیاں کرتا ہے، جس کا مقصد خطے کو کمزور کرنا اور اپنے عزائم کی تکمیل کرنا ہے۔
شام کے موجودہ حالات نے عوام کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد مختلف جنگجو گروہوں کی کاروائیوں نے شام کے عوام کی زندگی مزید خطرے میں ڈال دی ہے۔
شام کی موجودہ صورتحال صرف اس ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ مغربی طاقتیں اور اسرائیل پورے خطے کو کمزور کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں تاکہ نہ صرف شام بلکہ دیگر ممالک بھی اقتصادی اور دفاعی طور پر غیر مستحکم ہو جائیں۔
معاشی نقطۂ نظر سے، شام کی معیشت پہلے ہی تباہی کے دہانے پر ہے۔ امریکی پابندیاں اوپر سے ہیں نیز جنگجو گروہوں کی کُردوں کے ساتھ لڑائی کی وجہ سے داخلی انتشار کو مزید بڑھاوا مل رہا ہے۔ بہتری کی طرف بڑھنے کی تمام راہیں مسدود ہوتی نظر آ رہی ہیں۔
ایک مستحکم مملکت کے لیے امن اور تحفظ ناگزیر ہیں؛ لیکن شام میں یہ دونوں عناصر ناپید ہو چکے ہیں۔
شام کے بحران کا حل خطے کے ممالک کے متحدہ اقدام میں ہے۔ ایران اور دیگر طاقتوں کو ایک مؤثر سفارتی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ شام کی خودمختاری کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اگر اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا تو یہ نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا باعث بنے گا۔
شام کا بحران دراصل بین الاقوامی طاقتوں کے عزائم اور خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی کوشش ہے۔ عوامی تحریک کا دعویٰ محض ایک دھوکہ ہے، کیونکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ خطے کے ممالک کو مل کر شام کی حمایت کرنا ہوگی تاکہ عوام کو ان کے حقوق اور ایک محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔ بصورت دیگر، شام کے عوام کو ایک طویل عرصے کی بدحالی کا سامنا رہے گا اور یہ بحران پورے خطے کو غیر مستحکم کر دے گا۔